پانچ ریاستوں کے انتخابات، فرقہ پرستی اور مسلمان تیشہ فکر عابد انور/Five State election riots and muslims/ Abid Anwar




پانچ ریاستوں کے انتخابات، فرقہ پرستی اور مسلمان
تیشہ فکر عابد انور
وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے لال قلعہ کے فصیل سے جہاں پاکستان کوکھری کھوٹی سنائی تھی وہیں انہوں نے ملک میں فرقہ پرستی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور ببانگ دہل کہا تھاکہ ترقی پذیر اور سیکولر ملک میں فرقہ پرستی کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسی سوچ ہمارے معاشرے کو تقسیم اورجمہوریت کو کمزور کرتی ہے۔تمام سیاسی جماعتوں اور سماج کے تمام طبقوں سے فرقہ وارانہ سوچ پر قدغن لگانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی ثقافت کی ان روایات کو مضبوط کرنا ہوگا جو ہمیں دیگر نظریات کے تئیں روادار ہونا سکھاتی ہیں۔ یہ صرف تقریرکا ایک حصہ ہے اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے گزشتہ نو برسوں میں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لئے کیا کیا؟ کون سے اقدامات کئے؟ انسداد فرقہ پرستی بل اب تک دھول چاٹ رہاہے وزیر اعظم نے کبھی اس کی گرد کو بھی صاف کرنے کی کوشش نہیں کی۔ فرقہ پرست عناصر پورے ملک میں دندناتے پھر رہے ہیں لیکن کسی حکومت نے اس پر لگام لگانے کی کوشش نہیں کی ۔ اشتعال انگیز تقریر کے معاملے میں اکبرالدین اویسی کو تو جیل میں ڈال دیا لیکن آندھرا پردیش اور مرکز کی کانگریس حکومت نے پروین توگڑیایوگی آدتیہ ناتھ، اوما بھارتی، اشوک سنگھل،ورون گاندھی اور سوامی کے خلاف کون سی کارروائی کی؟ ہندوستان میں جتنے بھی فسادات ہوئے ہیں اس کے کسی خاطی کو سزا نہیں دی گئی تو پھر وزیر اعظم کس طرح فرقہ پرستی روکنے کی بات کررہے تھے، کیا تقریر اور ہمدردی کے چند بول سے مسلمانوں کا منظم قتل عام کا سدباب ہوجائے گا؟ وزیر اعظم کام ایکشن لینا، عمل کرانا ہوتاہے نہ کہ اپیل کرنا، اپیل تو حزب اختلاف کے لوگ کرتے ہیں کیوں کہ اس کے بس میں صرف اپیل کرنا ہی ہوتا ہے جب کہ عمل کی کنجی حکومت کے پاس ہے ۔ ہندوستان سے اگرفرقہ وارانہ نظریات کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ تو پہلے وزیر اعظم کوکانگریس کے اندرکی صفائی کرنی ہوگی۔ کانگریس میں آج بھی فرقہ پرست خیالات رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد ہے جو بابری مسجد کے قضیہ پر الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے سے ایک دن قبل ہی مٹھائی تفسیم کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے ان کی پہنچ کہاں تک تھی اور ان کو بابری مسجد کے فیصلہ کے بارے میں پہلے سے علم تھا۔اس وقت کے وزیر اعلی ویربہادر سنگھ نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ بابری مسجدکا تالا کھلوانے اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے جو کچھ ہوا ہے وہ سب اوپر ہوا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دو دن پہلے عدالت میں تالا کھولنے کے لئے مقدمہ دائر کیا جاتا ہے اور دو دن کے اندر تالا کھولنے کا فیصلہ سنادیا جاتا ہے اور فیصلہ سنانے کے بعد 40 منٹ کے اندر تالا کھول دیا جاتا ہے ۔ تالا کھولنے والے واقعہ کو براہ است ٹیلی کاسٹ کے لئے دوردرشن سے ٹیم پہنچ جاتی ہے۔تاریخ کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ فریق اپیل کرنے کا موقع بھی نہ دیا جائے اور اتنی جلد فیصلہ پر عمل ہوجائے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسکرپٹ پہلے لکھی جاچکی تھی اور اسکرپٹ کے مطابق اس پرعمل کیا گیا۔ جج کا فیصلہ نہیں حکومت کا فیصلہ کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریسی حکومت نے کبھی بھی فرقہ وارانہ فسادات پر سخت موقف اختیار نہیں کیا اور نہ ہی فسادیوں کے خلاف کوئی کارروائی کی البتہ تقریر کے میدان میں تما م رہنماؤں کی لمبی چوڑی تقریر ہے لیکن عمل کا میدان صفرسے پر ہے۔ اگر اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کو سزا دی گئی ہوتی مظفر نگر فسادات نہیں ہوتے اور اس وقت جبکہ پانچ ریاستوں میں اسمبل انتخابات ہونے والے ہیں فرقہ پرست عناصر کبھی 84کوس پریکرما، تو کبھی سنکلپ سبھا تو کبھی کسی یاترا وغیرہ کا نعرہ بلند کرکے فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو خوف کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ فرقہ پرست جماعت اپنی ریلیوں میں کھلا کھلم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کر رہی ہیں لیکن انتظامیہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جج پانڈے وکیل پانڈے ہو تو کسی انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔
فرقہ پرست اور فاسشٹ طاقتیں ہمیشہ اسی تاک میں رہتی ہیں کہ جھوٹ بار بار اور ڈھٹائی کے ساتھ اس قدر بولا جائے کہ سننے والوں کو سچ لگنے لگے ۔آج تک فسطائی طاقتوں نے یہی کیا ہے خاص طور پر ہندوستان میں اس کی کھیتی وسیع پیمانے پر کی جارہی ہے اور اس کے لئے سازگار بھی ہے ۔ روزانہ نئے نئے شگوفے سامنے آتے ہیں میڈیا کا ایک بڑا طبقہ اس کام میں منہمک رہتا ہے اور حالات کو اپنے زور قلم کے سہارے موڑنے کے لئے زمین آسمان ایک کردیتا ہے۔ مظفر نگر فسادات اس کے اسی جھوٹ کا مظہر ہے۔ تمام رپورٹوں سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس میں کس کا نقصان ہوا ہے لیکن میڈیا ، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں یہی پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ مظفر نگر میں ہندؤں کا زبردست نقصان ہورہا ہے۔وہاں مجرموں کو بچانے کے لئے خواتین کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ جب بھی پولیس گرفتار کرنے جاتی ہے خواتین کو ڈھال کے استعمال کیا جاتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وہاں کون کون اس فسادات کو بڑھاوا دینے میں شامل تھے اس کے باوجود وہ کھلے عام گھوم رہے ہیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن پر فسادات بھڑکانے کی سربراہی کا الزام ہے اس پارٹی اسی کو تحقیقاتی ٹیم کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ گجرات قتل عام کا نریندر مودی کو سربراہ مقرر کردیا جائے۔
پانچ ریاستوں کے انتخابات میں مہنگائی اور بدعنوانی کہیں موضوع نہیں ہے۔ کہیں بھی دلائل سے ایک دوسرے کو مات نہیں دی جارہی ہے بلکہ ذاتی اور رکیک حملے کئے جارہے ہیں۔ کانپور کی ریلی میں اترپردیش کے وزیر اعلی کلیان سنگھ نے ہندوتوا ، رامندر اور مظفر نگر جیسے حساس مسئلے کو اٹھاکر ووٹروں کو لبھانے کی کوشش کی۔ بی جے پی کی خمیر میں یہ بات ہے کہ فساد کی آگ بھڑکاؤ اور ووٹ حاصل کرو۔ بی جے پی نے متنازعہ رام مندر کا موضوع اٹھاکر ایک بار پھر ہندو ووٹ کو اپنی طرف کھینچے کی کوشش کی ہے۔ 2004 میں جب بی جے پی اقتدار سے بے دخل ہوئی تھی تو اس وقت بی جے پی نے محسوس کیا تھا کہ وہ تشدداور فرقہ وارنہ خطوط پر ملک کو تقسیم کرکے ہی اقتدار کی سیڑھی چڑھ سکتی ہے اسی لئے اس نے ہمیشہ تشدد کی حمایت کی ہے اور اپنے بازوؤں کو ہمیشہ کسی نہ کسی سطح پر تشدد کے لئے اکساتی رہی ہے۔ لیکن جب اقتدار میں ہوتی ہے تو بی جے پی کا لہجہ بدل جاتا ہے اور خود سیکولر ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے او ر اقتدار کا نشہ اس قدر چڑھ جاتا ہے کہ وہ رام مندر کو بھول جاتی ہے ۔9 اگست 2003 کو اس وقت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے پہلی بار واضح طور پر کہا تھا کہ مرکز کی حکمراں بی جے پی رام مندر کی تعمیر کے لئے اپنی حکومت کی قربانی نہیں دے گی۔ وشو ہندو پریشد نے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے کہا تھاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی بل کے ذریعہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموارے کرے۔ مسٹر اڈوانی نے یہ بات صحافیوں سے حیدرآباد جاتے ہوئے کہی تھی۔ انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ جب تک این ڈی اے اور یہاں تک کے اپوزیشن پارٹیوں میں رام مندر کے مسئلے پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوجاتی اس وقت بل نہیں لایا جاسکتا۔ دوسرابیان مسٹر اڈوانی نے اس وقت دیا جب وہ اقتدار میں نہیں تھے ۔19 جون 2008 کو انہوں نے اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی وکالت کی ۔ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب تیلگو زبان کی شری رام مندر نام کی ہندی میں ڈب کی گئی ورژن کو دیکھی تھی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ شری رام کے وقار کے لئے پورے ہندوستان میں رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئیے۔27 اکتوبر2004 کو مسٹر اڈوانی اسی سلسلے میں ایک اور بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پارٹی ا ب بھی اجودھیا میں رام مندر بنانے کے عہد کا پابند ہے۔ یہ بیان انہوں نے اس وقت دیا جب بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل ہوئے مشکل سے چھ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے یہ بیان پارٹی کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد دیا تھا۔
آئندہ ماہ سے ہونے والے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات اور 2014کے لوک سھا انتخابات میں فرقہ پرستی کو فروغ دیکر فرقہ پرست طاقیں اپنی کشتی پار لگانے کی کوشش کرے گی۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور دہلی میں راست مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے۔اروناچل پردیش میں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں ہے۔لیکن چاروں ریاستوں کے انتخابات خصوصاَ دہلی، راجستھان اور مدھیہ پردیش مسلمانوں کے خصوصیت کے حامل ہیں۔مسلمانوں کو ریزرویشن، دفعہ 341 کے فوائد سے مسلمانوں کو استثنی کرنے کی قید ختم کرنا اور مساوی مواقع کے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمر کس لیناچاہئے۔ یہاں مسلمانوں کو بہت سوچ سمجھ کر امیدوار کو منتخب کرنا ہوگا۔ مسلمانوں کو اسمبلی انتخابات میں کس پارٹی کو ووٹ دینا اور کس کو نہیں ، یہ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ان ریاستوں میں کانگریس اقتدار میں یا آئے یا بی جے پی ہندوؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مسلمانوں کو اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آرہی ہے۔ ان کی ذرا سی بھول پانچ برس ہی نہیں ایک لمبا عرصہ تک ان کی زندگی تباہ کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ برادران وطن کے کام کے لئے ادنی سے اعلی سطح تک کے افسران موجود ہیں لیکن مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنے کے لئے کوئی نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں کا نظر انتخاب انہیں امیدواروں پر جانی چاہئے جن کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ہو۔ جو مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہوں۔ سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے خاص طور پر ان مسلمانوں کی جن میں علماء، صلحاء، مشائخ، دانشور، لیکچرر، پروفیسر، اساتذہ اور مختلف شعہبائے حیات سے وابستہ ہر وہ افراد جو گلی محلے سے لے کربلاک، ضلع، ریاست اور ملک میں اپنا کچھ بھی اثرو رسوخ رکھتے ہوں ، ان پر فرض عین ہے کہ وہ اس میدان میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ آپ کسی پارٹی کی مخالفت یا حق میں خم ٹھوک کر میدان میں انتخابات میں کود پڑیں بلکہ وہ حضرات اس بات کی کوشش کریں کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم نہ ہو۔ کیوں کہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کی سازش تیار کی جاچکی ہے، مہرے ، پیادے اور کارندے تیار ہوچکے ہیں جو آپ کو خوشنما خواب دکھاکر آپ کے ووٹ کو بانٹنے کی تگ و دو میں لگ گئے ہیں۔ ایسے خوبصورت اور مذہبی لباس میں آر ایس ایس کے نمائندے آپ کے سامنے پیش ہورہے ہیں جو بات تو کریں گے اتحاد و اتفاق کی، مسلمانوں کی ترقی اور فلاح بہبود کی، مسلمانوں کی یک لخت حالت بدلنے کی لیکن سچ وہ آپ کی بھلائی نہیں آ پ کے ووٹ کو پارہ پارہ کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کام کو آسان بنانے کے لئے میدان میں ہیں۔ اس بارملک میں جس طرح کا سیاسی کھیل بی جے پی بہت ہی خاموشی سے کھیل رہی ہے اس کا احساس عام لوگوں کو تو کیا میدان میں سیاست بہت سے آزمودہ کھلاڑیوں کو بھی نہیں ہے۔ وہ صرف نام نہاد کامیابی کے غبارے پر سوار ہیں اور زعم ہے کہ اس کی حمایت کے بغیر کسی پارٹی کی حکومت نہیں بنے گی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں اعظم کا واقعہ سامنے ہے جہاں بی جے پی آج تک وہاں کامیابی نہیں ملی تھی وہ صرف ووٹوں کی تقسیم کے سہارے اعظم گڑھ کو فتح کرنے میں کامیاب رہی۔ اسی پارٹی اور اس کے میڈیا کارندے نے اعظم گڑھ کو ’’آتنک گڑھ‘‘ کہہ کر بدنام کیا تھا۔ نئی اور پرانی سیاسی پارٹیوں کی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو خود طے کرنا ہے کہ انہیں خوف و دہشت ، ذلت، بدنامی اور مجبوری کی زندگی پسند ہے یا عزت کی۔ اگر عزت کی زندگی پسند ہے تو انہیں اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ اس کا خمیازہ اگلے پانچ سال تک بھگتنا پڑے گا۔ہر پانچ سال کے بعد مسلمانوں کوحساب چکانے کا موقع ملتا ہے اگر یہ بھی چند کے عوض ذاتی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا تو پھر شکایت کرنے کے لئے بھی ہمارے پاس کچھ نہیں رہے گا۔
ان ریاستوں کے مسلمانوں کو بہار سے سبق حاصل کرنا چاہئے بی جے پی نے بہارمیں نتیش کمار کا نام نہاد سیکولر چہرہ سامنے رکھ کر کس طرح مسلمانوں کی نمائندگی کم کی۔ سیمانچل کا خطہ جہاں مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے وہاں سے بھی مسلمان جیت نہیں پائے۔ آج یہ پورا خطہ آر ایس ایس کے نرغے میں ہے۔ بی جے پی اور نتیش کمار نے بہت خوبصورتی سے مسلمانوں کا دروازہ اس طرح بند کیا کہ اس کا داغ بھی ان کے دامن پر نہیں لگا۔مسلمانوں کی نمائندگی بہار میں آج سب سے کم ہے۔ آج بہار مکمل طور پر فرقہ پرستوں کی چنگل میں ہے انہی فرقہ پرستوں کی مدد سے بہار کو دہشت گردی کی نئی آماجگاہ قرار دیا جارہا ہے ۔ آج بہار مکمل طور پر آر ایس ایس کے سحر میں گرفتار ہے مسلم وزیر بھی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر ہونٹ سی لئے ہیں۔ بہار اقلیتی کمیشن جسے آئینی درجہ حاصل ہے اسے کوئی مظالم نظر نہیں نظر آتے۔نتیش کمار حکومت نے بہار کو مسلمانوں کے جہنم بنادیا ہے۔ فرقہ پرست طاقت جب بھی جہاں بھی چاہتی ہے مسلمانوں پر حملے کرتی ہے ۔ بہار کا میڈیا جس میں وہاں کا اردو میڈیا بھی شامل ہے پوری طرح نتیش کمار کے زیر اثر ہے اور کوئی بھی بات جو نتیش کمار حکومت کے خلاف ہو لکھی نہیں جاتی ۔ بہار میں فرقہ پرستی کا وائرس اس طرح پھیل چکا ہے کہ اگلے پچاس تک اس کی صفائی ممکن نہیں ہوسکے گی۔ نتیش کمار کا سیکولرزم صرف دکھاوا ہے۔ لہذاان ریاستوں کے مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچائیں۔ان ریاستوں کے مسلمان اترپردیش میں جس طرح متحد ہوکر ووٹ دیا تھا اسی طرح وہ بھی ووٹ ڈالیں اور ہر مسلمان ووٹ ڈالنا اپنے اوپر فرض کرلیں۔ اسی کے ساتھ تمام ذی ہوش مسلمانوں (جن میں علماء اور مسٹر دونوں شامل ہیں) کی ذمہ داری ہے وہ اپنے چھوٹے موٹے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے مجموعی مفادات کے بارے میں سوچیں اور ان ہی امیدوار کی حمایت کریں جو مسلمانوں کے لئے کام کرنے کے لئے تیار ہوں اور اپنی نمائندگی کسی طرح بھی کم نہ ہونے دیں۔ یاد رکھئے ایک دن کی نادانی آپ کو سیکڑوں سال پیچھے چھوڑدے گی۔یہ بات رکھنے کے قابل ہے جب برا وقت آتا ہے تو یہ نہیں دیکھتا کہ کس ٹوپی اونچی ہے کس کی نیچے، کون قبر پرست ہے کون نہیں ہے۔ ان طاقتوں کے سامنے صرف مسلمان ہوتا ہے خواہ ان کا تعلق کسی طبقہ، مسلک، نظریہ ماڈرن اور الٹراماڈرن مسلمانوں سے ہو سب کو ایک ہی نظر دیکھاجاتا ہے۔ جس طرح گولی تمیز نہیں کرتی اسی طرح یہ طاقتیں بھی کسی مسلک میں تمیز نہیں کرتیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335

Comments