لکشمن پورباتھے قتل عام کا فیصلہ: ہندوستانی نظام عدل پر سوالیہ نشان تیشہ فکر عابد انور /Bihar Lakshmanpur Bathe Massacre/ abid anwar
لکشمن پورباتھے قتل عام
کا فیصلہ: ہندوستانی نظام عدل پر سوالیہ نشان
تیشہ فکر عابد انور
انصاف کا حصول ہندوستان میں کتنا ممکن اس کا اندازہ حالیہ دو تین واقعے سے لگایا جاسکتا ہے اور ملک میں رائج اس کہاوت کو ایک بار پھرسچ ثابت کردیا ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘‘۔ اس واقعے سے یہ بات سورج کی مانند عیاں ہوگئی ہے کہ اعلی ذات کی دراندازی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا میں کس قدر ہے۔ اس کی جڑیں اتنی گہرائی میں پیوست ہیں کہ کوئی بھی حکومت آجائے اس نظام کو تبدیل کرنایا اکھاڑنا تو دور کی بات اسے ہلا بھی نہیں سکتی۔اگر کسی نے ہلانے کی ادنی سی بھی کوشش کی تو اس کا انجام لالو پرساد یادو جیسا ہوگا۔ لکشمن پور باتھے قتل عام کے ملزمان کی پٹنہ ہائی کورٹ سے بری کیا جانا اور رگھوراج پرتاپ عرف راجا بھیا کی اکھلیش یادو کابینہ میں واپسی نے ہندوستان کے نظام عدل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ راجا بھیا کا کیس ابھی ختم نہیں ہوا ہے ۔سی بی آئی کے کلین چٹ دینے کے خلاف مرحوم ڈی ایس پی ضیاء الحق کی بیوہ پروین آزاد نے اعتراض داخل کیا ہے جو ابھی زیر التوا ہے۔اس کے باوجود اس مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے شخص کی اترپردیش کابینہ میں واپسی جہاں مسلمانوں کی بے وقعتی کو ظاہر کرتا ہے وہیں اکھلیش یادو حکومت پر بھی سوالیہ نشان قائم کرتا ہے کہیں راجا بھیا کو کلین دینے میں اترپردیش حکومت کا ہاتھ تو نہیں۔ راجا بھیا کوئی دودھ دھلا انسان نہیں جرم ان کی خصلت اور جبلت میں شامل ہے۔ کونڈا تھانہ میں ان اور ان کے والد کا نام ہسٹری شیٹر کے طور پر درج ہے۔ پندرہ سال پہلے کنڈاکے تھانے کے ریکارڈ میں راجا بھیا اور ان کے والد ادے پرتاپ سنگھ کے خلاف دھوکہ دہی سمیت قتل کے کئی مقدمات درج تھے اور ان کا نام علاقے کے "ہسٹری شیٹروں" میں شامل تھا۔"ان کے والد کے بارے میں پولیس ریکارڈ میں درج ہے کہ وہ 20 ارکان والا مجرم گروہ کے سرغنہ ہے۔ دستاویز کے مطابق ادے پرتاپ سنگھ خطرناک ہتھیاروں سے خود کو آراستہ کرنا پسند کرتے ہیں اور آج کے اس آزادی کے دور میں اپنے سماج مخالف خیالات کی بنیاد پر "الگ ریاست" قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کنڈا کے ایک مسلم گاؤں میں 1991-92میں ہونے والے مسلم کش فساد کا بھی راجا بھیا کو ماسٹر مائنڈ تسلیم کیا جاتاہے۔’’ ادے پرتاپ سنگھ خود دون سکول سے تعلیم یافتہ تھے لیکن انہیں راجہ بھیا کو رسمی تعلیم دیئے جانے پر اعتراض تھا۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرنے سے راجا بھیا بزدل ہوجائیں گے۔ راجہ بھیا نے صرف 24 سال کی عمر میں سیاست میں ہاتھ آزمایا اور آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب جیت لیاتھا۔ مایاوتی نے جب کلیان سنگھ حکومت سے حمایت واپس لی تھی تب راجا بھیا نے حکومت بچانے میں کلیان سنگھ کو بھرپور مدد دی تھی۔ مایاوتی کے دور حکومت میں ان پر پوٹا قانون کے تحت مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن سماج وادی پارٹی کی انتخابی کامیابی سے وہ پھر اتر پردیش کی سیاست کے مرکز میں آگئے تھے۔ ملائم سنگھ نے 2003 میں اپنی حکومت کا سب سے پہلا کام جو انجام دیا تھا وہ راجا بھیا کی رہائی کا حکم تھا اور ان کے خلاف پوٹا کے تحت الزام واپس لے لئے تھے تاہم سپریم کورٹ نے پھر بھی راجہ بھیا کو رہا کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ راجا بھیا کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر آریس پانڈے نے شکایت درج کروائی کہ راجا بھیا انہیں پریشان کر رہے ہیں۔کچھ وقت بعد آر ایس پانڈے ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے ۔دوبار2007 میں ہ مایاوتی برسراقتدار آئیں تو راجا بھیا کو دوبارہ جیل جانا پڑا۔ 2012 میں سماج وادی پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی اور باہر سے کسی کی حمایت کی ضرورت باقی نہیں تھی اس کے باوجود آزاد امیدوار کے طور پر فتح حاصل کرنے والے راجا بھیا کو ملائم سنگھ نے اکھلیش حکومت میں شامل کروایاتھا۔اس سے راجا بھیا اور ملائم سنگھ کے رشتے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور اتنے جرائم کرنے کے باوجود وہ آزاد کیوں گھوم رہے ہیں۔ ڈاکٹر پروین آزاد کی نامزد ایف آئی آر درج کرانے کے باوجود رگھو راج پرتاپ کی گرفتاری نہ ہوناسماج وادی پارٹی سے ان کے گہرے رشتے کا بین ثبوت تھا۔ بہت ہنگامے کے بعدراجا بھیانے اترپردیش کابینہ سے استعفی دے دیا۔ سی بی آئی سے کلین چٹ ملنے کا اشارہ سی بی آئی کے تحقیقات شروع کرنے سے پہلے ہی ملنا شروع ہوگیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سی بی آئی کا رویہ تفتیش میں کیسا رہا ہوگا۔
دوسرے واقعہ میں لکشمن پور بھاتے گاؤں میں ہونے والے قتل عام میں پٹنہ ہائی کورٹ نے ثبوت کی کمی کی وجہ سے تمام 26ملزمان کو بر ی کردیا۔ نچلی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے پٹنہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے بعد جج بیین سنہا اور اے لال کی بینچ نے ثبوت کے فقدان میں تمام 26 ملزمان کو بری کر دیا۔پٹنہ کے ایڈیشنل ضلع اور سیشن جج وجے پرکاش مشرا نے اس معاملے میں سال 2010 میں 26 افراد کو مجرم قرار دیتے ہوئے 16 کو پھانسی اور 10 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور 19 لوگوں کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا تھا اس معاملے میں دو ملزمان کی کیس کی سماعت کے دوران ہی موت ہو گئی تھی۔ ممنوعہ تنظیم رنویر سینا نے یکم دسمبر 1997 کو لکشمن پور باتھے گاؤں میں 58 دلتوں کے قتل کر دیا تھامرنے والوں میں 27 عورتیں اور 16 بچے شامل تھے۔ ان 27 خواتین میں تقریبا دس خواتین حاملہ بھی تھیں۔ اس وقت صدر رہے کے آر نارائنن نے گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس قتل کو ’’قومی شرم‘‘ قرار دیا تھا وقت کے وزیر اعظم اندرا کمار گجرال سمیت تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے اس قتل کی مذمت کی تھی۔ اسی طراپریل 2012 میں بتھانی ٹولہ قتل عام کے ملزمین کو پٹنہ ہائی کورٹ بری کرچکی ہے ۔ اس میں رنویر سینا کے غنڈے شامل تھے۔ بتھانی ٹولہ قتل عام معاملے میں23 ملزموں کی رہائی حکومت بہار کی لاپروائی اور مجرموں کو بچانے کا عندیہ ظاہر ہوگیا تھا۔ سارے ملزموں کو پٹنہ ہائی کورٹ کا بری کردینا اس بات کو ثابت کرتاتھا کہ حکومت بہار کا منشا مجرموں کو سزا دلانے کی قطعی نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو حکومت مضبوطی کے ساتھ سزا دلوانے کی کوشش کرتی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بتھانی ٹولہ قتل عام میں آرا کی ضلع عدالت نے 23ملزموں میں سے تین کو پھانسی اور 20 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ بہار حکومت عدالت کے سامنے دستاویزات کے مطابق ثبوت پیش نہیں کئے اور عدالت نے بھی پولیس کی لاپروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ 11 جولائی 1996 کو رنویرسینانے اس گاؤں میں دن کے ڈھائی بجے حملہ کیاتھا۔ اس وقت گاؤں میں صرف عورتیں اور بوڑھے مرد تھے۔ رنویر سینا کے لوگوں نے ایک ایک کر 21 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔قتل عام اٍور درندگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے 9 ماہ کی ایک معصوم بچی کو ہوا میں اچھال کر اس پر نشانہ لگایا تھا شاعرہ خاتون نامی ایک عورت کی سرعام اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ایک خاتون کی چھاتی کاٹ لی گئی تھی۔رنویر سینا کی بربریت پر ہندی کے مشہور ادیب اور جے ڈی یو سے بہار اسمبلی کے رکن پریم کمار منی نے ایک خط وزیر اعلی کو لکھا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ بہت دکھ کے ساتھ اور تقریبا تین ماہ کی مخمصے کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ جب آدمی اقتدار میں ہوتا ہے، تب اس کا چال کردار سب بدل جاتا ہے۔آپ کے رویے سے مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔دراصل بہار میں رنویر سیناکی زمینی فوج کی سماجی طاقتیں راج کر رہی ہیں۔آپ بتائیں گے؟ آپ بہار کی ترقی میں خرچ کی گئی رقم کی تفصیلات دیجئے۔میں دو منٹ میں بتا دوں گا کہ اس کی کتنی رقم رنویر سینا کے پیٹ میں گئی ہے۔رنویر کا سربراہ برمیشور سنگھ کھلے عام کہا کرتا تھا انہوں نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کے بچوں کو مار کر اس نے اور اس کے ساتھیوں نے کوئی غلطی نہیں کی، آخر بڑے ہوکر پر وہ نکسلی ہی بنتے۔دلت اورپسماندہ خواتین جن مسلم خواتین بھی شامل ہیں ۔ اس درندے ایک وحشیانہ فرمان بھی دیکھئے ۔ خواتین کی آبروریزی کر کے انہیں جان سے مار دینے والے اس وحشی درندے کا کہنا تھا کہ یہ خواتین نکسلیوں کو جنم دیتی ہیں، اس لئے ان کا مارا جانا ضروری ہے۔ ایسے درندے کی عدالت سے رہائی کا تصور کسی اور ملک میں نہیں کیا جاسکتا۔یہ صرف ہندوستان اور خاص طور پر بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں ہی ممکن ہے۔ جہاں سے سارے قوانین اور ضابطے پیلیا کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گوامیں بی جے پی کے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کے خلاف فساد برپاکرنے والے تمام بی جے پی کارکنوں اور سیاست دانوں کو عدالت نے بری کردیا۔ بی جے پی کی حکومت کا مطلب کا اقلیتوں اورپسماند طبقوں کا خون ہے کیوں کہ بی جے پی کے ضابطے میں غیر اعلانیہ طور پر ان لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہیں۔
درحقیقت رنویر سینا کے افراد کو بری کرنے کی تیاری نتیش کمار نے اسی دن شروع کردی تھی کہ جب رنویر سینا کے سیاسی تعلقات اور اس کے حقائق کیلئے قائم امیر داس کمیشن کو انہوں نے جنوری 2006 میں تحلیل کردیا تھا جب وہ رپورٹ پیش کرنے والا تھا ۔ اس کمیشن کی تشکیل اس وقت کے آر جے ڈی حکومت نے رنویر سینا کے سیاہ کارناموں کو اجاگر کرنے کے لئے قائم کیا تھا۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس امیرداس نے اعتراف کہ ان کی جانب سے ساری کارروائی مکمل ہو چکی تھی، صرف رپورٹ پیش کرناہی باقی رہ گیا تھا لیکن اس سے پہلے کہ رنویر سینا کے خونی کھیل کا سیاہ سچ لوگوں کے سامنے آ پاتا، نتیش کمار نے اس کمیشن کو ہی تحلیل کر دیا۔سوال یہ ہے کہ آخر نتیش کمار نے کمیشن کو تحلیل کیوں کیا تھا۔ کمیشن کو تحلیل کرکے انہوں نے رنویر سینا کی حمایت ،بچانے اور اسے تحفظ فراہم کرنے کا کام نہیں کیا؟۔بتھانی ٹولہ قتل عام اور رنویر سینا کے سربراہ کی رہائی اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ بہار میں کمزور طبقوں کے لئے حصول انصاف کتنا مشکل کام ہے۔ یہ قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ بہار میں تین سو دلتوں اور پسماندہ طبقات کے افراد کے قتل عام کے لئے ذمہ دار رنویر سینا اور اس کے سربراہ برمیشورمکھیا کی رہائی حکومت بہار کی منشا کو صاف ظاہر کرتی تھی وہ انصاف کے تئیں کتنا مخلص ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ300 لوگوں کے قتل کرنے والوں کے خلاف بہار حکومت کوئی ٖثبوت نہیں ڈھونڈ سکی۔قانون کے کئی ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے اپنی طرف سے برمیشور مکھیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔حکومت کا عزم اس بات ظاہر ہوتا ہے کہ 2006 سے وہ بہار کے مختلف جیلوں میں سرکاری مہمان کے طور پر رہ رہا تھا۔ دلتوں اور پسماندہ طبقات کا خون پینے والے اس خونی بھیڑیے کو بہار حکومت کی طرف سے وہ ہر سہولت حاصل تھی، جو ایک سیاسی قیدی کو ملتا ہے۔
نتیش کمار حکومت کبھی بھی مظلوں کو انصاف دلانے میں حساس نہیں رہی ۔ انہوں نے ہمیشہ ظالموں کی پشت پناہی اور اسے سہولت فراہم کی ہے۔ گودھراً ٹرین حادثہ کے وقت جب وہ ریلوے کے وزیر تھے اس کاسچ کبھی سامنے نہیں آنے دیا۔ جب سے انہوں نے بہار میں اقتدار سنبھالا ہے مسلمانوں اور کمزور طبقوں کے خلاف مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس وقت بہار میں مسلمانوں کی نہ تو عزت محفوظ ہے، نہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں اور ان کے مفادات ۔ فاربس گج پولیس فائرنگ کے معاملے میں لاش پر کودنے والا ہوم گارڈ کے جوان سنیل یادو کو چار مہینے کے اندر ضمانت مل گئی جب کہ ان پر 302 کے تحت مقدمہ درج تھا،کیا کسی مسلمان کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے؟۔ لکشمن پورباتھے قتل عام کیس میں بری کئے جانے ملزموں کے خلاف گرچہ حکومت بہار نے سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آخر سب کے سب بری کیسے ہوگئے؟۔ حکومت بہار پٹنہ ہائی کورٹ میں اس کی پیروی موثر طریقے سے کیوں نہیں کی؟اس کے دہشت گرد قہر برپا کرتے رہے لیکن وہ پولیس کی پہنچ سے وہ ہمیشہ دور کیوں رہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ حکومت کا رویہ رنویر سینا کے تئیں ہمیشہ ہمدردانہ رہا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جب پولیس رنویر سینا کے خلاف کارروائی کرنے جاتی انہیں کچھ پولیس افسران اور سیاست داں ہی پہلے انہیں خبردار کردیتے اور وہ آسانی سے اپنا ٹھکانہ بدل لیتے تھے۔ بہار آج قتل، اغوا، ڈکیٹی، لوٹ مار، آبروریز اور دیگر جرائم کے واقعات سے دوچار ہے لیکن فرق یہ ہے کہ یہ بات میڈیا میں جگہ نہیں بناپاتی۔ برہمن اور اونچی ذات کا میڈیا اس طرح کے واقعات کو سرد خانے میں ڈال دیتا ہے۔ میڈیا کو خرید کر شہرت تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اچھی حکمرانی نہیں کی جاسکتی ۔کیا بہار حکومت بھی گجرات کے راستے پرچل پڑی ہے؟
بہار میں ترقی کاترقی کا ڈھول بہت پیٹا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ترقی عارضی ہے اور اس میں ان لوگوں کا حصہ ہے جو بہار سے باہر ہیں اور موٹی رقم بھیجتے ہیں۔ بہار میں ترقی کی شرح گزشتہ سال 13.13 فیصدتھی جو تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ تھی لیکن کیا یہ اعداد و شمار صحیح تصویر پیش کرتی ہے۔ بغور دیکھا جائے تو بنیادی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ بہار میں نوے فیصد لوگ کھیتی پر منحصر کرتے ہیں۔ زراعت کے لئے کچھ نہیں ہوا ہے،روزگار کے مواقع نہیں بڑھے،کسان آج بھی پریشان ہیں ، مزدور نقل مکانی کر رہے ہیں۔کارخانے نہیں بنیں گے تو ترقی کیسے ہوگی۔ کوئی نیا بزنس نہیں آیا ہے۔کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے تو روزگار کے مواقع کیسے بڑھیں گے۔ بات یہ ہے کہ میڈیا میں یہ باتیں نہیں آتیں۔ ہندوستان میں جس طرح کھلے عام نفرت کی کھیتی جارہی ہے اور ظالم کروفر کے ساتھ گھوم رہے ہیں اس سے ملک میں خوف و دہشت سے پاک حکومت کی قلعی کھل جاتی ہے یہ ہندوستان کے آرٹیکل 21کی خلاف ورزی ہے جس میں باوقار اور بے خوف زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت انگریزوں کے دلوں میں بھی نہیں تھی جو اس وقت پولیس، انتظامیہ، میڈیا میں پائی جاتی ہے۔ یہی رویہ حصول انصاف میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اقتدار اعلی سے لیکر ادنی تک اور اعلی افسران سے چپراسی تک کا رویہ مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقوں کے تئیں بے حسی کا ہے۔ یہی وجہ ہے آزادی کے بعد سے خاطی آزاد گھوم رہے ہیں اور عدالت سے صاف بچ نکلتے ہیں۔
ڈی۔64فلیٹ نمبر10ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔110025
abidanwaruni@gmail.com
9810372335
تیشہ فکر عابد انور
انصاف کا حصول ہندوستان میں کتنا ممکن اس کا اندازہ حالیہ دو تین واقعے سے لگایا جاسکتا ہے اور ملک میں رائج اس کہاوت کو ایک بار پھرسچ ثابت کردیا ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘‘۔ اس واقعے سے یہ بات سورج کی مانند عیاں ہوگئی ہے کہ اعلی ذات کی دراندازی عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ اور میڈیا میں کس قدر ہے۔ اس کی جڑیں اتنی گہرائی میں پیوست ہیں کہ کوئی بھی حکومت آجائے اس نظام کو تبدیل کرنایا اکھاڑنا تو دور کی بات اسے ہلا بھی نہیں سکتی۔اگر کسی نے ہلانے کی ادنی سی بھی کوشش کی تو اس کا انجام لالو پرساد یادو جیسا ہوگا۔ لکشمن پور باتھے قتل عام کے ملزمان کی پٹنہ ہائی کورٹ سے بری کیا جانا اور رگھوراج پرتاپ عرف راجا بھیا کی اکھلیش یادو کابینہ میں واپسی نے ہندوستان کے نظام عدل پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ راجا بھیا کا کیس ابھی ختم نہیں ہوا ہے ۔سی بی آئی کے کلین چٹ دینے کے خلاف مرحوم ڈی ایس پی ضیاء الحق کی بیوہ پروین آزاد نے اعتراض داخل کیا ہے جو ابھی زیر التوا ہے۔اس کے باوجود اس مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے شخص کی اترپردیش کابینہ میں واپسی جہاں مسلمانوں کی بے وقعتی کو ظاہر کرتا ہے وہیں اکھلیش یادو حکومت پر بھی سوالیہ نشان قائم کرتا ہے کہیں راجا بھیا کو کلین دینے میں اترپردیش حکومت کا ہاتھ تو نہیں۔ راجا بھیا کوئی دودھ دھلا انسان نہیں جرم ان کی خصلت اور جبلت میں شامل ہے۔ کونڈا تھانہ میں ان اور ان کے والد کا نام ہسٹری شیٹر کے طور پر درج ہے۔ پندرہ سال پہلے کنڈاکے تھانے کے ریکارڈ میں راجا بھیا اور ان کے والد ادے پرتاپ سنگھ کے خلاف دھوکہ دہی سمیت قتل کے کئی مقدمات درج تھے اور ان کا نام علاقے کے "ہسٹری شیٹروں" میں شامل تھا۔"ان کے والد کے بارے میں پولیس ریکارڈ میں درج ہے کہ وہ 20 ارکان والا مجرم گروہ کے سرغنہ ہے۔ دستاویز کے مطابق ادے پرتاپ سنگھ خطرناک ہتھیاروں سے خود کو آراستہ کرنا پسند کرتے ہیں اور آج کے اس آزادی کے دور میں اپنے سماج مخالف خیالات کی بنیاد پر "الگ ریاست" قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کنڈا کے ایک مسلم گاؤں میں 1991-92میں ہونے والے مسلم کش فساد کا بھی راجا بھیا کو ماسٹر مائنڈ تسلیم کیا جاتاہے۔’’ ادے پرتاپ سنگھ خود دون سکول سے تعلیم یافتہ تھے لیکن انہیں راجہ بھیا کو رسمی تعلیم دیئے جانے پر اعتراض تھا۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم حاصل کرنے سے راجا بھیا بزدل ہوجائیں گے۔ راجہ بھیا نے صرف 24 سال کی عمر میں سیاست میں ہاتھ آزمایا اور آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب جیت لیاتھا۔ مایاوتی نے جب کلیان سنگھ حکومت سے حمایت واپس لی تھی تب راجا بھیا نے حکومت بچانے میں کلیان سنگھ کو بھرپور مدد دی تھی۔ مایاوتی کے دور حکومت میں ان پر پوٹا قانون کے تحت مقدمہ درج کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن سماج وادی پارٹی کی انتخابی کامیابی سے وہ پھر اتر پردیش کی سیاست کے مرکز میں آگئے تھے۔ ملائم سنگھ نے 2003 میں اپنی حکومت کا سب سے پہلا کام جو انجام دیا تھا وہ راجا بھیا کی رہائی کا حکم تھا اور ان کے خلاف پوٹا کے تحت الزام واپس لے لئے تھے تاہم سپریم کورٹ نے پھر بھی راجہ بھیا کو رہا کرنے سے انکار کر دیاتھا۔ راجا بھیا کو گرفتار کرنے والے پولیس افسر آریس پانڈے نے شکایت درج کروائی کہ راجا بھیا انہیں پریشان کر رہے ہیں۔کچھ وقت بعد آر ایس پانڈے ایک سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے ۔دوبار2007 میں ہ مایاوتی برسراقتدار آئیں تو راجا بھیا کو دوبارہ جیل جانا پڑا۔ 2012 میں سماج وادی پارٹی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آئی اور باہر سے کسی کی حمایت کی ضرورت باقی نہیں تھی اس کے باوجود آزاد امیدوار کے طور پر فتح حاصل کرنے والے راجا بھیا کو ملائم سنگھ نے اکھلیش حکومت میں شامل کروایاتھا۔اس سے راجا بھیا اور ملائم سنگھ کے رشتے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی اور اتنے جرائم کرنے کے باوجود وہ آزاد کیوں گھوم رہے ہیں۔ ڈاکٹر پروین آزاد کی نامزد ایف آئی آر درج کرانے کے باوجود رگھو راج پرتاپ کی گرفتاری نہ ہوناسماج وادی پارٹی سے ان کے گہرے رشتے کا بین ثبوت تھا۔ بہت ہنگامے کے بعدراجا بھیانے اترپردیش کابینہ سے استعفی دے دیا۔ سی بی آئی سے کلین چٹ ملنے کا اشارہ سی بی آئی کے تحقیقات شروع کرنے سے پہلے ہی ملنا شروع ہوگیا تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سی بی آئی کا رویہ تفتیش میں کیسا رہا ہوگا۔
دوسرے واقعہ میں لکشمن پور بھاتے گاؤں میں ہونے والے قتل عام میں پٹنہ ہائی کورٹ نے ثبوت کی کمی کی وجہ سے تمام 26ملزمان کو بر ی کردیا۔ نچلی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے پٹنہ ہائی کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کے بعد جج بیین سنہا اور اے لال کی بینچ نے ثبوت کے فقدان میں تمام 26 ملزمان کو بری کر دیا۔پٹنہ کے ایڈیشنل ضلع اور سیشن جج وجے پرکاش مشرا نے اس معاملے میں سال 2010 میں 26 افراد کو مجرم قرار دیتے ہوئے 16 کو پھانسی اور 10 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور 19 لوگوں کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا تھا اس معاملے میں دو ملزمان کی کیس کی سماعت کے دوران ہی موت ہو گئی تھی۔ ممنوعہ تنظیم رنویر سینا نے یکم دسمبر 1997 کو لکشمن پور باتھے گاؤں میں 58 دلتوں کے قتل کر دیا تھامرنے والوں میں 27 عورتیں اور 16 بچے شامل تھے۔ ان 27 خواتین میں تقریبا دس خواتین حاملہ بھی تھیں۔ اس وقت صدر رہے کے آر نارائنن نے گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس قتل کو ’’قومی شرم‘‘ قرار دیا تھا وقت کے وزیر اعظم اندرا کمار گجرال سمیت تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے اس قتل کی مذمت کی تھی۔ اسی طراپریل 2012 میں بتھانی ٹولہ قتل عام کے ملزمین کو پٹنہ ہائی کورٹ بری کرچکی ہے ۔ اس میں رنویر سینا کے غنڈے شامل تھے۔ بتھانی ٹولہ قتل عام معاملے میں23 ملزموں کی رہائی حکومت بہار کی لاپروائی اور مجرموں کو بچانے کا عندیہ ظاہر ہوگیا تھا۔ سارے ملزموں کو پٹنہ ہائی کورٹ کا بری کردینا اس بات کو ثابت کرتاتھا کہ حکومت بہار کا منشا مجرموں کو سزا دلانے کی قطعی نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو حکومت مضبوطی کے ساتھ سزا دلوانے کی کوشش کرتی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ بتھانی ٹولہ قتل عام میں آرا کی ضلع عدالت نے 23ملزموں میں سے تین کو پھانسی اور 20 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ظاہر سی بات ہے کہ بہار حکومت عدالت کے سامنے دستاویزات کے مطابق ثبوت پیش نہیں کئے اور عدالت نے بھی پولیس کی لاپروائی پر سخت تنقید کی ہے۔ 11 جولائی 1996 کو رنویرسینانے اس گاؤں میں دن کے ڈھائی بجے حملہ کیاتھا۔ اس وقت گاؤں میں صرف عورتیں اور بوڑھے مرد تھے۔ رنویر سینا کے لوگوں نے ایک ایک کر 21 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔قتل عام اٍور درندگی کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے 9 ماہ کی ایک معصوم بچی کو ہوا میں اچھال کر اس پر نشانہ لگایا تھا شاعرہ خاتون نامی ایک عورت کی سرعام اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ایک خاتون کی چھاتی کاٹ لی گئی تھی۔رنویر سینا کی بربریت پر ہندی کے مشہور ادیب اور جے ڈی یو سے بہار اسمبلی کے رکن پریم کمار منی نے ایک خط وزیر اعلی کو لکھا تھا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ بہت دکھ کے ساتھ اور تقریبا تین ماہ کی مخمصے کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ جب آدمی اقتدار میں ہوتا ہے، تب اس کا چال کردار سب بدل جاتا ہے۔آپ کے رویے سے مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔دراصل بہار میں رنویر سیناکی زمینی فوج کی سماجی طاقتیں راج کر رہی ہیں۔آپ بتائیں گے؟ آپ بہار کی ترقی میں خرچ کی گئی رقم کی تفصیلات دیجئے۔میں دو منٹ میں بتا دوں گا کہ اس کی کتنی رقم رنویر سینا کے پیٹ میں گئی ہے۔رنویر کا سربراہ برمیشور سنگھ کھلے عام کہا کرتا تھا انہوں نے دلتوں اور پسماندہ طبقات کے بچوں کو مار کر اس نے اور اس کے ساتھیوں نے کوئی غلطی نہیں کی، آخر بڑے ہوکر پر وہ نکسلی ہی بنتے۔دلت اورپسماندہ خواتین جن مسلم خواتین بھی شامل ہیں ۔ اس درندے ایک وحشیانہ فرمان بھی دیکھئے ۔ خواتین کی آبروریزی کر کے انہیں جان سے مار دینے والے اس وحشی درندے کا کہنا تھا کہ یہ خواتین نکسلیوں کو جنم دیتی ہیں، اس لئے ان کا مارا جانا ضروری ہے۔ ایسے درندے کی عدالت سے رہائی کا تصور کسی اور ملک میں نہیں کیا جاسکتا۔یہ صرف ہندوستان اور خاص طور پر بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں ہی ممکن ہے۔ جہاں سے سارے قوانین اور ضابطے پیلیا کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں گوامیں بی جے پی کے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کے خلاف فساد برپاکرنے والے تمام بی جے پی کارکنوں اور سیاست دانوں کو عدالت نے بری کردیا۔ بی جے پی کی حکومت کا مطلب کا اقلیتوں اورپسماند طبقوں کا خون ہے کیوں کہ بی جے پی کے ضابطے میں غیر اعلانیہ طور پر ان لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہیں۔
درحقیقت رنویر سینا کے افراد کو بری کرنے کی تیاری نتیش کمار نے اسی دن شروع کردی تھی کہ جب رنویر سینا کے سیاسی تعلقات اور اس کے حقائق کیلئے قائم امیر داس کمیشن کو انہوں نے جنوری 2006 میں تحلیل کردیا تھا جب وہ رپورٹ پیش کرنے والا تھا ۔ اس کمیشن کی تشکیل اس وقت کے آر جے ڈی حکومت نے رنویر سینا کے سیاہ کارناموں کو اجاگر کرنے کے لئے قائم کیا تھا۔ کمیشن کے سربراہ جسٹس امیرداس نے اعتراف کہ ان کی جانب سے ساری کارروائی مکمل ہو چکی تھی، صرف رپورٹ پیش کرناہی باقی رہ گیا تھا لیکن اس سے پہلے کہ رنویر سینا کے خونی کھیل کا سیاہ سچ لوگوں کے سامنے آ پاتا، نتیش کمار نے اس کمیشن کو ہی تحلیل کر دیا۔سوال یہ ہے کہ آخر نتیش کمار نے کمیشن کو تحلیل کیوں کیا تھا۔ کمیشن کو تحلیل کرکے انہوں نے رنویر سینا کی حمایت ،بچانے اور اسے تحفظ فراہم کرنے کا کام نہیں کیا؟۔بتھانی ٹولہ قتل عام اور رنویر سینا کے سربراہ کی رہائی اس بات کو ظاہر کرتا تھا کہ بہار میں کمزور طبقوں کے لئے حصول انصاف کتنا مشکل کام ہے۔ یہ قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ بہار میں تین سو دلتوں اور پسماندہ طبقات کے افراد کے قتل عام کے لئے ذمہ دار رنویر سینا اور اس کے سربراہ برمیشورمکھیا کی رہائی حکومت بہار کی منشا کو صاف ظاہر کرتی تھی وہ انصاف کے تئیں کتنا مخلص ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ300 لوگوں کے قتل کرنے والوں کے خلاف بہار حکومت کوئی ٖثبوت نہیں ڈھونڈ سکی۔قانون کے کئی ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ حکومت نے اپنی طرف سے برمیشور مکھیا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔حکومت کا عزم اس بات ظاہر ہوتا ہے کہ 2006 سے وہ بہار کے مختلف جیلوں میں سرکاری مہمان کے طور پر رہ رہا تھا۔ دلتوں اور پسماندہ طبقات کا خون پینے والے اس خونی بھیڑیے کو بہار حکومت کی طرف سے وہ ہر سہولت حاصل تھی، جو ایک سیاسی قیدی کو ملتا ہے۔
نتیش کمار حکومت کبھی بھی مظلوں کو انصاف دلانے میں حساس نہیں رہی ۔ انہوں نے ہمیشہ ظالموں کی پشت پناہی اور اسے سہولت فراہم کی ہے۔ گودھراً ٹرین حادثہ کے وقت جب وہ ریلوے کے وزیر تھے اس کاسچ کبھی سامنے نہیں آنے دیا۔ جب سے انہوں نے بہار میں اقتدار سنبھالا ہے مسلمانوں اور کمزور طبقوں کے خلاف مظالم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ اس وقت بہار میں مسلمانوں کی نہ تو عزت محفوظ ہے، نہ ان کی عبادت گاہیں محفوظ ہیں اور ان کے مفادات ۔ فاربس گج پولیس فائرنگ کے معاملے میں لاش پر کودنے والا ہوم گارڈ کے جوان سنیل یادو کو چار مہینے کے اندر ضمانت مل گئی جب کہ ان پر 302 کے تحت مقدمہ درج تھا،کیا کسی مسلمان کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے؟۔ لکشمن پورباتھے قتل عام کیس میں بری کئے جانے ملزموں کے خلاف گرچہ حکومت بہار نے سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ آخر سب کے سب بری کیسے ہوگئے؟۔ حکومت بہار پٹنہ ہائی کورٹ میں اس کی پیروی موثر طریقے سے کیوں نہیں کی؟اس کے دہشت گرد قہر برپا کرتے رہے لیکن وہ پولیس کی پہنچ سے وہ ہمیشہ دور کیوں رہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ حکومت کا رویہ رنویر سینا کے تئیں ہمیشہ ہمدردانہ رہا۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ جب پولیس رنویر سینا کے خلاف کارروائی کرنے جاتی انہیں کچھ پولیس افسران اور سیاست داں ہی پہلے انہیں خبردار کردیتے اور وہ آسانی سے اپنا ٹھکانہ بدل لیتے تھے۔ بہار آج قتل، اغوا، ڈکیٹی، لوٹ مار، آبروریز اور دیگر جرائم کے واقعات سے دوچار ہے لیکن فرق یہ ہے کہ یہ بات میڈیا میں جگہ نہیں بناپاتی۔ برہمن اور اونچی ذات کا میڈیا اس طرح کے واقعات کو سرد خانے میں ڈال دیتا ہے۔ میڈیا کو خرید کر شہرت تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن اچھی حکمرانی نہیں کی جاسکتی ۔کیا بہار حکومت بھی گجرات کے راستے پرچل پڑی ہے؟
بہار میں ترقی کاترقی کا ڈھول بہت پیٹا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ترقی عارضی ہے اور اس میں ان لوگوں کا حصہ ہے جو بہار سے باہر ہیں اور موٹی رقم بھیجتے ہیں۔ بہار میں ترقی کی شرح گزشتہ سال 13.13 فیصدتھی جو تمام ریاستوں میں سب سے زیادہ تھی لیکن کیا یہ اعداد و شمار صحیح تصویر پیش کرتی ہے۔ بغور دیکھا جائے تو بنیادی ڈھانچہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ بہار میں نوے فیصد لوگ کھیتی پر منحصر کرتے ہیں۔ زراعت کے لئے کچھ نہیں ہوا ہے،روزگار کے مواقع نہیں بڑھے،کسان آج بھی پریشان ہیں ، مزدور نقل مکانی کر رہے ہیں۔کارخانے نہیں بنیں گے تو ترقی کیسے ہوگی۔ کوئی نیا بزنس نہیں آیا ہے۔کوئی نئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی ہے تو روزگار کے مواقع کیسے بڑھیں گے۔ بات یہ ہے کہ میڈیا میں یہ باتیں نہیں آتیں۔ ہندوستان میں جس طرح کھلے عام نفرت کی کھیتی جارہی ہے اور ظالم کروفر کے ساتھ گھوم رہے ہیں اس سے ملک میں خوف و دہشت سے پاک حکومت کی قلعی کھل جاتی ہے یہ ہندوستان کے آرٹیکل 21کی خلاف ورزی ہے جس میں باوقار اور بے خوف زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت انگریزوں کے دلوں میں بھی نہیں تھی جو اس وقت پولیس، انتظامیہ، میڈیا میں پائی جاتی ہے۔ یہی رویہ حصول انصاف میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اقتدار اعلی سے لیکر ادنی تک اور اعلی افسران سے چپراسی تک کا رویہ مسلمانوں، دلتوں اور کمزور طبقوں کے تئیں بے حسی کا ہے۔ یہی وجہ ہے آزادی کے بعد سے خاطی آزاد گھوم رہے ہیں اور عدالت سے صاف بچ نکلتے ہیں۔
ڈی۔64فلیٹ نمبر10ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔110025
abidanwaruni@gmail.com
9810372335
Comments
Post a Comment