egypt syria massacre and muslim world/abid anwar/ مصر میں اخوانیوں کا قتل عام،خاموش مسلم دنیا اور دوغلہ مغرب تیشہ فکر عابد انور
مصر
میں اخوانیوں کا قتل عام،خاموش مسلم دنیا اور دوغلہ مغرب
تیشہ فکر عابد انور
مسلم دنیا کے
دو طاقتور ملک ایک دولت کے لحاظ سے دوسرا تکنالوجی کے حساب سے، لیکن دونوں کے ہاتھ
خون آلود ہیں اور دونوں ہی ملک اپنی طاقت کا نشہ اور مبہم تکنالوجی کے غرورکے
سہارے عرب دنیامیں خون خرابہ روکنے بجائے قتل و غارت گری کو فروغ دینے میں ایڑی
چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اب تک دونوں ملکوں کی حمایت سے شام اور مصر کی افواج نے
لاکھوں انسانوں کوخون سے نہلا دیا ہے۔ ایران کی حمایت ، فوجی،مالی اور دیگر امداد
سے جہاں شام میں اب تک لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ہے وہیں مصری فوج نے سعودی
عرب اور دیگر مسلم و مغرب دنیا کی مالی مدد سے اب تک 6181افراد شہید،25 ہزار 552
زخمی اور تقریباً اٹھارہ ہزار سے زائد اخوان المسلمین کے اراکان کو گرفتار کیا ہے۔
اس اندوہناک واقعہ سے عرب حکمراں شرمسار ہوں یا نہ ہوں لیکن پوری دنیاکے مسلمانوں
کا شرم مارے سر جھک گیا ہے۔ دونوں ملکوں کی یہ کرتوت صرف مصر اور شام تک محدود نہیں
رہے گی بلکہ ظالم طاقتیں پوری دنیا میں مسلمانوں پر قہر ڈھانے کیلئے اس کو نظیر
بنائیں گے اور ببانگ دہل کہیں گے مسلم حکمرانوں کو مصر و شام کے قتل عام کو بھی یاد
رکھنا چاہئے جس کی ان لوگوں نے مذمت تک نہیں کی تھی۔ ہم سربیا کے مظالم کی داستان
بہت رونگھٹے کھڑے کردینے والے انداز میں بیان کرتے ہیں لیکن اگر آپ شام کے مظالم
کو دیکھیں گے تو سربیا پر ڈھائے جانے والا ظلم ہیچ نظر آئے گا کیوں کہ جس طرح ایرانی
فوج اورلبنانی حزب اللہ کی حمایت سے شامی علویوں نے سنیوں پر جو روح فرساجور و ظلم
کی تاریخ رقم کی ہے دنیا اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی ۔ خواتین کے ساتھ جس بڑے پیمانے
پر آبروریزی کے واقعات شام میں ہوئے ہیں اور خواتین کے اندام نہانی میں جس طرح
چوہوں کو ڈال کراور دیگر وحشیانہ طریقہ اْختیار کرکے اذیت دی گئی ہے ابو غریب اور
گوانتاناموبے جیل کی دل دہلانے والے تشدد کم تر نظر آتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں میانمار
میں بودھ راہبوں کے ذریعہ مسلمانوں کو جلانے، قتل عام کرنے، خواتین کے ساتھ آبروریزی
اور دیگر مظالم کے خلاف مسلمانوں نے جس طرح پوری دنیامیں متحد ہوکر آواز اٹھائی تھی
وہ آواز اب کہاں دب گئی۔ کیا ہم مظالم کے معاملے میں تفریق کرتے ہیں۔ یہودی، عیسائی
یا کوئی اور ظلم کرے تو وہ ظلم ہے اور عرب دنیامیں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر
مسلمانوں کا رویہ تجاہل عارفانہ ہی نہیں بلکہ حمایت کا ہے ۔ مصر میں ہونے والے
مظالم کے تئیں ہندوستانی مسلمانوں سمیت پوری مسلم دنیامیں قدرے بے چینی پائی جاتی
ہے لیکن علمائے کرام اور مسلم تنظیموں پر خاموشی کی برف کی موٹی چادر تنی ہوئی ہے۔
بلکہ اگریہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ علمائے کرام ظالموں کی صف اور اس کی حمایت
کھڑے نظر آتے ہیں۔ وظفیہ خوار اور سرکاری علمائے کرام کے بارے میں سنا کرتے تھے جب
بادشاہ اپنی مرضی کے مطابق ان سے فتوے حاصل کیا کرتے تھے لیکن اس کا نظارہ آپ پوری
مسلم دنیا اور مسلمانوں کے درمیان دیکھنے کو ملے گا۔ جب بھی کوئی چھوٹا موٹا
معاملہ ہوتا ہے فوراً مذہب کو درمیان میں لے آیا جاتا ہے یہ اچھی بات ہے مذہب کا
لحاظ رکھا جانا چاہئے لیکن مسلمانوں کے قتل کے بارے میں بھی مذہب میں بہت کچھ
صراحت کے ساتھ کہا گیاہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل سے تشبیہ دی گئی
ہے۔ اس پر ہمارے علمائے کرام اور نام نہاد اسلامی حکمراں کیوں نہیں سوچتے کیا ان
لوگوں نے اسلام کو محض اپنی حکمرانی کیلئے ڈھال بنا رکھا ہے؟ اگر غیر اسلامی کام
سعودی عرب ، شام، مصر یا دیگر ممالک میں انجام دیا جارہا ہے تو وہاں کے حکومت کا کیا
کوئی جوازہے؟ سعودی حکومت کا بھی اب کوئی جواز نہیں اس لئے فوراً اس کے خلاف مہم
چھیڑ دینی چاہئے۔ کیوں کہ یہ حکومت امریکہ، اسرائیل اور دیگر فاسق و فاجر اور
اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ ان کے اشارے کے بغیر سانس تک
نہیں لے سکتی۔ سعودی دولت کا استعمال اسرائیلی و مغربی طاقتیں اسلام کے خلاف کرتی
ہیں۔
معزول صدر محمد
مرسی کے حامیوں کو منتشر کرنے کے لئے مصری فوج نے جس طرح وحشیانہ کارروائی کی ہے
تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔سب سے بڑا قتل عام رابعہ العدویہ میں کیا گیا تھا ۔
اس کے بعد النہضہ چوک کو نشانہ بنایاگیا تھا۔ جس میں ایک اندازے کے مطابق 4712 مرسی
حامی مظاہرین کو فوج نے بے دریغ قتل کیااور یہ قتل عام تین گھنٹوں کے اندر انجام دیا
گیا۔ رابعہ عدویہ کو چاروں طرف سے محاصرہ کرکے مصری فوجیوں نے گھناؤنا قتل عام
انجام دیا تھا۔اس کے بعد جو کوئی اپنی جان بچاکر قریب کی مسجد میں پناہ گزیں ہوئے
تھے پھر دھاوا بول کر قتل عام انجام دیا۔ رابعہ عدویہ مسجد کی جلی ہوئی حالت دیکھ
کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسجد میں پناہ گزیں پر کیا گزری ہوگی۔احتجاجی کیمپوں
کے خلاف عبوری حکومت کی فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد اخوان المسلمون کی جانب سے
مصری عوام سے اپیل بھی کی گئی کہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔ اخوان المسلمون کے ترجمان
جہاد الحداد کے مطابق یہ احتجاجی کیمپوں کو منتشر کرنے کا عمل نہیں بلکہ فوجی
بغاوت کے بعد اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی ایک خونی کارروائی ہے۔ الحداد کے مطابق
وہ کسی بھی حالت میں اپنے حق کو نہیں چھوڑیں گے اور جبر کے خلاف آواز اپنی بلند
کرتے رہیں گے۔ فوجی بغاوت کے بعد یہ سب سے بڑا قتل عام ہے۔ ان ہلاکتوں کی آزاد
ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔ سکیورٹی آپریشنز کے شروع ہونے پر فوج نے سینکڑوں ریت
کے تھیلوں کو بھاری ٹرکوں پر لاد دیا تھا۔ اس کے علاوہ مظاہرین کی جانب سے تیار کردہ
اینٹوں کی حفاظتی دیواروں کو بھی فوج نے بلڈوزر کا استعمال کرکے توڑ دیا۔ مصری
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق14 اگست کو قاہرہ میں مرسی کے حامیوں کے احتجاج ختم
کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 638 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس کے ایک دن
بعد پولیس کو اجازت دی گئی کہ وہ سرکاری املاک کی حفاظت کے لئے براہ راست فائرنگ
کر سکتے ہیں۔ 16 اگست کو14 اگست کے قتل عام کے خلاف ’یوم غضب‘ منایا گیا اور
پرتشدد واقعات میں 173 افراد ہلاک ہو گئے۔ 18اگست کو اخوان المسلمین کے 36 قیدیوں
کو گیس چھوڑ کر ہلاک کردیا تھا۔اس کے رہنما محمد بدیع سمیت کئی اعلی رہنماؤں کو
فوج گرفتار کرچکی ہے۔ اس کا مقصد اخوان کا مورل ڈاؤن کرنا ہے تاکہ انہیں مذاکرات کی
میز پر لاکر منمانے طریقہ سے ان سے اپنی شرطیں منواسکیں۔ لیکن انہیں معلوم نہیں ہے
کہ ظلم و جبر اور قیدوبند، شہادت اور اذیت برداشت کرنے کا مادہ ان میں اس وقت سے
ہے جب ان کی بنیاد پڑی تھی۔ مصر میں اس تنظیم نے بے شمار مصائب کا سامنا کیا ہے لیکن
کبھی بھی اس نے اپنے موقف سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ کہا جاتاہے کہ نوبل انعام یافتہ
محمد البرادعی فوج کے قتل عام کے مخالفت تھے اس لئے انہوں نے اس قتل کے خلاف استعفی
دے دیا لیکن انہوں نے فوجی بغاوت کی حمایت کی تھی اور جمہوریت کو اپنے پیروں تلے
روندنے والوں کا ساتھ دیا اس لئے ان سے نوبل انعام واپس لیا جانا چاہئے۔ مغرب کا
پروردہ البرادعی کا جمہوری عمل میں کوئی اعتماد نہیں ہے۔ اگر وہ یا حزب اختلاف مصر
کی حکومت میں تبدیلی چاہتے تھے تو انتخاب بہترین مبتادل تھا۔جمہوریت میں تبدیلی کا
طریقہ انتخاب ہی ہے۔اگر مظاہرہ کسی حکومت کے گرانے پیمانہ قرار پایا تو اس وقت جو
مظاہرے ہورہے ہیں وہ تین جولائی سے قبل کے مظاہرے سے زیادہ بڑے ہیں تو فوج کو
فوراً عبوری حکومت کو برطرف کرکے مظاہرین (اخوان ) کو اقتدار سونپ دینا چاہئے۔
مصرمیں وسیع پیمانے
پر قتل عام کی حمایت کرنے کے بعد اب مغرب کی طرف سے مذمت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مغرب خیرمقدم اور مذمت کا جملہ حقوق اپنے حق میں رمحفوظ رکھتا
ہے۔ لیکن یہ مذمت بہت دیر سے کی گئی اگر اس بغاوت کو فوجی بغاوت قرار دے دیا جاتا
تو مصری فوج اتنے بڑے قتل عام انجام دینے سے باز رہتی۔ یہیں امریکہ اور مغرب کی
دوغلی پالیسی اجاگر ہوگئی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹرویلے نے
تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین کو تشدد کی راہ ترک کرتے ہوئے مذاکرات کا راستہ
اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔اسی طرح یورپی یونین نے بھی احتجاجی کیمپوں پر سکیورٹی
فورسز کے کریک ڈاؤن اور ہلاکتوں پر گہری تشویش کا اظہار اور فریقین کو صبر و تحمل
کی تلقین کی ہے۔ کچھ اور ملکوں نے بھی مصر میں عبوری حکومت کے کریک ڈاؤن کی مذمت
کرتے ہوئے اسے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔برطانیہ کی جانب سے بھی کریک ڈاؤن پر مذمت
کا بیان سامنے آیا ہے۔ترکی نے بھی قاہرہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کی سخت الفاظ میں
مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ اور عرب لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ قاہرہ شہر میں سویلین
کے قتل عام کو فوری اقدام کرتے ہوئے روکے ساتھ ہی اس نے مصری فوج کی کارروائی کے
بعد مصر سے اپنا سفیر بھی احتجاجاً واپس بلا لیا ہے۔ یہ واحد ملک ہے جس نے ظلم کے
خلاف کھل کر آواز بلند کی ہے۔ خلیجی ریاست قطر نے بھی مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں
ہوئے طاقت کے استعمال کی مذمت کی ہے۔ قطری حکومت کے بیان میں کہا گیا کہ النہضہ
اسکوائر کیمپ اور رابعہ العدویہ مسجد کیمپ کو جس طاقت کے استعمال سے منتشر کرنے کا
عمل مکمل کیا گیا ہے، وہ قابلِ مذمت ہے۔ ایران نے مصر میں معزول صدر کے حامیوں کے
کیمپوں کے خلاف کئے گئے کریک ڈاؤن کو ’قتلِ عام‘ قرار دیا ہے۔حقوقِ انسانی کی
علمبردار بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تو اِسے ’صریحاً کشت و خون‘
قرار دیا ہے۔سخت تنقید کا نشانہ بننے کے بعد براک اوباما نے مصر کی عبوری حکومت کے
اقدامات کی جانب سے دھرنے پر بیٹھے عوام کو ہٹانے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کی
شدید مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مصر خطرناک راستے پر ہے اور عبوری حکومت کو تشدد
ختم کر کے قومی مفاہمت کے عمل کی جانب بڑھنا چاہیے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ
ہم کسی جماعت یا سیاسی شخصیت کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔دوسری طرف حقوقِ انسانی کے لیے
اقوامِ متحدہ کی کمشنر نوی پلے نے کہا ہے کہ مصر میں ہونے والی ہلاکتوں کی آزادانہ
اور غیرجانبدارانہ انکوائری کروائی جائے۔
فوجی حکومت نے
اخوان کے اس طرح کے مظالم تک ہی اپنی کارروائی محدود نہیں رکھی ہے بلکہ اس کے
اثاثے بھی منجمد کررہی ہے اور میڈیا میں خبر یہاں تک گشت کر رہی ہے کہ فوجی حکومت
اخوان پر پابندی لگاناچاہ رہی ہے۔اگر ایسا ہوا تو مصر کے حالات مستقبل میں مزید
بگڑ سکتے ہیں کیوں کہ زیر زمین تنظیمیں زیادہ خطرناک ہوتی ہیں بہ نسبت مین اسٹریم
میں شامل تنظیموں کے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بڑی غلطی ہو گی کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے
کہ اخوان کے ساتھ اس صورت میں نمٹنا آسان ہوتا ہے جب وہ سیاسی عمل میں شامل ہو،
بجائے اس کے وہ زیرِزمین رہ کر دوسری شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات استوار کر
لے۔ فی الحال حکومت اخوان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کر رہی ہے۔ اس کے ہزاروں
کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جس میں اخوان کی اعلیٰ قیادت بھی شامل ہے۔ اس کے
اثاثے منجمد کئے جا چکے ہیں اور اس سے منسلک میڈیا کو بند کر دیا گیا ہے۔حکومت کے
اس قدم سے اخوان کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اخوان کا یوم غضب اور پورے
مصر میں مرسی کی حمایت میں مظاہرہ ہے۔ فوج کے ہاتھوں اخوان کے حمایت یافتہ صدر
محمد مرسی کی معزولی اس ناانصافی کی علامت بن گئی ہے۔ بہت سے لوگ جو بغاوت سے قبل
اخوان سے کوئی سروکار نہیں رکھتے تھے، وہ بھی اب اپنے مشترکہ دشمن فوج کے خلاف ان
کے حامی بن گئے ہیں اور فوجی حکومت نے رہی سہی کسر فرعون وقت حسنی مبارک کور ہا
کرکے پوری کردی ہے۔
مصر کو بڑے پیمانے
پر فوجی امداد دینے والا امریکہ قاہرہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بدستور مخمصے کا
شکار ہے مگر ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون سینیٹر کیلی ایاٹ کے مطابق
تازہ پْر تشدد واقعات کے بعد مزید امداد دینے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے اور امداد
معطل کر دی جانی چاہیے۔ تاہم سعودی عرب نے کہا ہے کہ مغربی ملکوں کی طرف سے امداد
میں کمی کو عرب اور اسلامی دنیا پورا کر دے گی۔اس کے اس اعلان سے شاہ عبداللہ کے
اس خط کی تصدیق ہوجاتی ہے جس میں انہوں نے اخوان کوشکست دینے کی بات کہی تھی۔ اپنے
خط میں واضح طورپرمصر میں متعین سعودی سفیر کو ہدایت دی تھی کہ مصر کے انتخابات میں
اسلام پسند امیدواروں بالخصوص اخوان کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ اس میں اب کسی شک کوئی
گنجائش رہ گئی ہے اس فوجی بغاوت کے پس پشت سعودی عربیہ، متحدہ عرب امارات، بحرین،
کویت، ایران اور امریکہ کا ہاتھ تھا۔ امریکہ کے کئی صحافیوں نے اس پر مضامین لکھے
ہیں اور فرید زکریا کا مضمون بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جو امریکہ کی طرف سے مرسی کے
خلاف احتجاج کرنے والوں کو فنڈ مہیا کیا گیاتھا۔ سعودی شاہ اور سعودی عرب کا بیان
واضح اشارہ کرتا ہے کہ اس نے مصر ی کے نام نہاد مظاہرین کو مرسی حکومت کے خلاف
مظاہرہ کرنے کیلئے فنڈ فراہم کیا تھا۔ اس سے پوری مسلم دنیا میں سعودی عرب کے ساکھ
کو بہت دھچکا لگا ہے۔عوام اس سے نفرت کرنے لگے ہیں۔خود سعودی عرب میں اندر ہی اندر
ایک آتش فشاں بھڑک رہا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سعودی عرب کے 56علماء نے مصری صدر
محمد مرسی کی معزولی کو حرام قرار دیا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اخوان
کی حامیوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ پوری عرب دنیا میں اخوان کے
حق میں لہر چل رہی ہے ۔ سعودی عرب نے ظلم و جبر کے سہارے اس طاقت کو دبانے کی کوشش
کی ہے لیکن جلد اسے برے نتائج بھگتنے ہوں گے اور اس کا انجام صدام حسین اور لیبیا
کے معمر قذافی سے بھی بدتر ہوگا۔ ان دونوں کے جانثار کی بڑی تعداد تھی لیکن سعودی
شاہ اور اس کے شہزادوں کو ان کے حامی ہی دوڑا دوڑا کر ماریں گے اور وہی کریں گے جو
ان لوگوں نے سعودی عوام کے ساتھ کیا ہے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر،
اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment