مرسی کی اقتدار سے بے دخلی : امریکی جمہوریت کے دوہرے پیمانے اجاگر/egypt american Democracy and arms/abid anwar
مرسی کی اقتدار سے بے دخلی : امریکی جمہوریت کے دوہرے پیمانے اجاگر
تیشہ فکر عابد انور
اہل مغرب کام کو سب سے زیادہ بگاڑتے ہیں اور ٹھیک کرنے کے بہانے سب سے پہلے پہنچتے بھی ہیں۔ کسی ملک کو تخت و تاراج کرتے ہیں اور تعمیر نو کے لئے سب سے پہلے کانفرنس بھی وہی بلاتے ہیں۔ پہلے اسلحہ کی سپلائی کرکے اپنی تجوری بھرتے ہیں اور پھر اس اسلحہ کو تباہ کرنے کے نام پر چڑھائی کرتے ہیں۔ غرض کہ دونوں کام اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں تاکہ کسی کے اس میں کودنے کی گنجائش نہ رہے۔ پہلے امریکہ نے اجتماعی تباہی خیزی کے ہتھیار تلاش کرنے کے بہانے عراق کے تمام بنیادی ڈھانچوں کو برباد کردیا اس سے بھی دل نہیں بھر ا تو عراق میں جمہوریت قائم کرنے کے لئے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی میں مبتلا افغانستان پربمباری کرکے وہاں کے تمام بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا اور جب تمام ضروریات کی چیزیں تباہ ہوگئیں تو تعمیر نو کے نام پر اپنی موجودگی کو جائز ٹھہرایا اور پنے ملک کے خزانہ کا منہ بھرنے کیلئے تمام بڑے ٹھیکے اپنے ملک اور اپنے حلیف ملکوں کو دیا۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اہل مغرب نے اپنی توجہ مشرق وسطی کی طرف مرکوز کردی۔ امریکہ اور اہل یوروپ چاہتے تو خلیجی ممالک پر قبضہ کرسکتے تھے اور زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے سکتے تھے کیوں کہ دنیا کی کوئی انہیں طاقت روکنے والی نہیں تھی۔ بات بات پر شور و غوغا کرنے والی تنظیم اقوام متحدہ اس کی رکھیل ہے اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر انہی کاقبضہ ہے۔ آج تک اقوام متحدہ نے اہل مغرب کی مرضی کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں کی اور اگر کر بھی دی تو اس پر عمل کبھی ممکن نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے خلاف منظور کی جانے والی قراردادیں شامل ہیں۔ امریکہ اور مغرب پوری دنیا سے ناجائز قبضہ ہٹا چکا ہے لیکن فلسطین پر قابض اسرائل کو اپنا داماد بنا رکھا ہے۔اس کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ہمیشہ اس کو تحفظ فراہم کرتا رہاہے۔ یہاں انہیں جمہوریت ، انسانی حقوق کی پامالی، بنیادی ڈھانچوں کی بربادی اور خواتین وا طفال کے حقوق نظر نہیں آتے۔جہاں بھی جنگ ہوتی ہے یا خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوتی ہے وہاں سب سے زیادہ پامالی انسانی حقوق اور خصوصاً خواتین وا طفال کے حقوق ہوتی ہے۔ دوغلی پالیسی اور دوہرے پیمانہ اپنانے کے لئے زمانے میں یکتا مغرب ان چیزوں پر آنکھ موند کر بیٹھ جاتا ہے۔ دنیا میں جتنی برائی ہے اس میں مغرب کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔مغرب کی اچھائی کے دوررس اثرات بھی برے ہوتے ہیں۔ انگریزی دوامریض کو جلد شفا دیتی ہے لیکن اس کے ساتھ کئی بیمایوں کے بیج بھی بودیتی ہے۔ جس طرح انگریزی دوائیاں سائڈ افیکٹ کے لئے مشہور ہیں اسی طرح مغرب کی دوستی، امداد اور تمام سرگرمیاں سائڈ افیکٹ کے لئے مشہور ہیں۔ دس ڈالر کی امداد وہیں کرتے ہیں جہاں انہیں یا ان کی کمپنی کو سو ڈالر کمانے کی امید ہوتی ہے۔ مغربی ممالک انہی ممالک میں جمہوریت کی وکالت کرتے ہیں جہاں ان کے مفاد کو خطرہ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کے مفادات بدترین بادشاہت سے پورے ہوتے ہیں توانہیں وہ بھی گوارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب ، قطر، کویت اور دیگر خلیجی ممالک ہیں جہاں کے عوام نے کبھی جمہوریت کا منہ نہیں دیکھااور وہاں کے عوام اظہار آزادی کے تمام حقوق سے محروم ہیں لیکن ان کے خلاف امریکہ یا مغرب نے کارروائی تو دور کی بات ان کے خلاف کبھی سخت تبصرہ تک نہیں کیا۔ان ممالک نے عراق اور لیبیا کو جمہوریت کی بحالی کے نام پر تباہ کیا ہے لیکن مصر میں ایک منتخب حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی حرکت کو جمہوریت کی بحالی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ کیسی سوچ ہے؟ تاریخ نے اب تک امریکہ کا ا تنا بدترین دوغلہ پن اب تک نہیں دیکھا ہے۔ مصر کے تعلق سے ان کا اپنا یا جانے والا رویہ نے اس کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔امریکہ نے جس طرح مصری فوج کی حمایت کی ہے اس کے بعد وہ لفظ جمہوریت پر بولنے کا حق بھی کھو چکا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے حالیہ اسلام آباد دورے کے دوران یکم اگست کو جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے جس طرح مصری فوج کے دہشت گردانہ قدم کی تعریف کی اور بدترین اور انتہائی غلط نظیر قائم کرنے والے رویے کی جس طرح اس نے حمایت کی ہے اس سے ہر انصاف پسند پریشان ہے۔جان کیری کے مطابق مصری فوج کو ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد ملک کو تشدد سے بچانے کے لیے مْرسی کو ہٹانے کے لئے ایکشن لینا پڑا،’’ملٹری کو لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرف سے مداخلت کے لئے کہا گیا، یہ تمام لوگ ملک کے دوبارہ افراتفری اور تشدد میں گھِر جانے سے خائف تھے۔‘‘ مصری فوج اسلام پسند رہنما کی حکومت ختم کر کے ’جمہوریت کو بحال‘ کر رہی تھی۔ ’’ہمارے فہم کے مطابق فوج نے اب تک اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ ملکی معاملات چلانے کے لئے وہاں ایک سول حکومت ہے۔ دراصل وہ ملک میں جمہوریت کو بحال کر رہے تھے۔‘‘ امریکہ کی طرف سے ابھی تک مصر میں منتخب صدر کی حکومت ختم کرنے کے فوجی اقدام کو ’فوجی بغاوت‘ قرار دیے جانے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوری طور پر مصر کے لئے امریکی امداد متاثر ہوگی۔اب امریکہ کھلم کھلا مصری فوج کے اقدام کی نہ صرف تعریف کی ہے بلکہ توثیق بھی کردی ہے۔ سابق مصری صدر محمد مرسی کے حامیوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان پر شدید تنقید کی ہے ۔ جماعت اخوان المسلمون کے ایک ترجمان جہاد الحداد نے امریکہ کو اس کا کرییہ چہرہ دکھاتے ہوئے کہا، ’’کیا یہ فوج کا کام ہے کہ وہ جمہوریت کو بحال کرے؟ کیا امریکی سکریٹری خارجہ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ملک میں اگر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوتے ہیں تو سکریٹری دفاع چک ہیگل صدر باراک اوبامہ کی حکومت کا خاتمہ کردیں۔‘‘ حداد کا مزید کہنا تھا، ’’کیا امریکی فوج ملکی آئین معطل کرکے کانگریس اور سینیٹ کو ختم کرے گی؟ کیا وہ اپنی پسند کا صدر مقرر کر سکتے ہیں؟‘‘۔ اخوان المسلمین نے ان جملوں میں نہ صرف امریکہ اور پوری دنیا کوآئینہ دکھایا ہے بلکہ مستقبل کے خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے اگر یہ کھیل مصرمیں کھیلا گیا ہے تو کل کہیں اور کھیلا جاسکتاہے۔ اخوان المسلمین نے امریکہ کے جمہوریت کے بارے میں نظریہ کو اجاگر کردیا ہے اور بتادیا ہے کہ امریکہ کسی جمہوریت کا قائل نہیں ہے بلکہ اس کا مفاد سب سے پیارا ہے خواہ وہ انسانی لاشوں پر ہی اس کے مفادات کیوں نہ پورے ہوتے ہوں۔
مصر کی صورت حال پر مغرب کی دوہری پالیسی پرترکی نے امریکہ اور مغرب پر سخت تنقید کی ہے کیوں کہ امریکہ اور مغرب نے ترکی میں حالیہ مظاہرے کی حمایت کرتے ہوئے ترکی پر سخت تنقید کی تھی۔ ترکی وزیر اعظم طیب ارودغان نے مصر میں قتل عام پر سخت تنقید کی اور کہا ہے کہ اس وحشت پر خاموشی اختیار کرنے والے وحشت کے ساجھے دار ہیں۔مصر پر مغربی دنیا کے طرز عمل اور ذرائع ابلاغ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ایردوغان نے کہا کہ " ہم اس وحشت کے مقابل خاموش نہیں رہیں گے۔ہم ترکی ہیں ہم ناانصافی کے سامنے جھک نہیں سکتے، اگر ہر کوئی خاموش رہے تو بھی ہم خاموش نہیں رہیں گے"۔ "ملک میں منتخب حکومت کو ختم کرنے والوں نے اب عوام کو قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے، ان کی طاقت دشمن پر نہیں صرف اور صرف اپنی عوام پر اثر دکھاتی ہے"۔مصر کے حالات پر خاموشی اختیار کرنے پر یورپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اب یورپ کہاں ہے ،یورپی یونین کہاں ہے، یورپی سوسائٹیاں کہاں ہیں، ادھر اْدھر جمہوریت کا درس دینے والے کہاں ہیں، جمہوری اقدار کہاں ہیں اور اقوام متحدہ کہاں ہے؟ ترکی میں پولیس کے نہایت درجے برحق اور جائز شکل میں تیز دھار پانی اور آنسو گیس کے استعمال پر شور شرابہ کرنے والے مصر میں فوجی قبضے اور قتل عام کے مقابل کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ استنبول میں ایک عام مظاہرے کی گھنٹوں تک لائیو کوریج دینے والا بی بی سی اور سی این این مصر میں فوجی قبضے اور اب قتل عام کو کیوں نہیں دیکھ پا رہا۔اس لئے کہ یہ ان کے مفاد میں نہیں ہے"۔ایرودغان نے عالم اسلام کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مصر میں آپ کے بھائیوں کو قتل کیا جا رہاہے، انصاف، سچائی اور ضمیر کو قتل کیا جا رہا ہے ، آپ اسے کب سنیں گے؟
یہ بات جگ ظاہر ہوچکی ہے مرسی کی منتخب جمہوری حکومت کو گرانے میں جہاں سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات ، دیگر خلیجی نے سیاسی اور معاشی مدد کی وہیں جنرل عبدالفتح السیسی کو امریکہ، اسرائیل ، ایران اور دیگر اسلام دشمن ممالک کی تائید حاصل تھی۔ اس کا مقصد صرف اور صرف خلیجی ممالک میں اسلحہ کا دوڑ شروع کرنا ہے۔ خلیجی ممالک اب تک اجتماعی تباہی خیزی کے اسلحہ سے پاک تھے لیکن نوے کی دہائی کے بعد وہاں اسلحہ کا دور جم کر شروع ہوگیا۔ اس کو مہمیز دینے میں ایران کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ امریکہ نے ایرانی ایٹمی اسلحہ کا خوف دکھاکر خلیجی ممالک میں اسلحہ نیا دوڑ شروع کیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی علاقائی ممالک کے فوجی اخراجات کا تخمینہ ایک سو گیارہ بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔اس سلسلے میں اڑسٹھ بلین ڈالر کی خریداری سے سعودی عرب سرِ فہرست ہے جو کہ امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔دوسری جانب عرب ممالک ایران کے خوف سے بھی اسلحہ خرید رہے ہیں جس کی مالیت تقریباً ایک سو تئیس بلین ڈالر ہے۔ سویڈش تھنک ٹینکStockholm International Peace Research Institute کی رپورٹ کے مطابق اسلحہ درآمد کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک ہندوستان ،چین، پاکستان، جنوبی کوریا اور سنگا پور ہیں جو مجموعی عالمی اسلحے کا 32فی صد خریدتے ہیں جبکہ برآمد کرنے والے سرفہرست ممالک میں امریکہ، روس، جرمن، فرانس اور چین ہیں۔ 2008 سے2012کے درمیان دنیا بھر میں اسلحہ ایکسپورٹ کرنے میں امریکہ کا30فیصد، روس کا26فیصد،جرمنی کا7فیصد،فرانس کا6فیصد اور چین کا5فیصد حصہ رہا ہے جبکہ اسی عرصے میں امپورٹ کرنے میں ہندوستان کا12فیصد، چین کا 6فیصد، پاکستان کا5فیصد، جنوبی کوریا کا5فیصد اور سنگا پور کا4فیصدحصہ رہا ہے۔ چینی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار پاکستان ہے۔ پاکستان چینی اسلحے کا55فیصد، میانمار8فیصد، بنگلادیش 7فیصد خریدار ہے۔ پاکستان نے 2003 سے2007کے درمیان عالمی اسلحے کا2فیصد جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں 5فیصد درآمد کیا۔ پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں چین کا50فی صد،امریکہ کا27فیصد اور سویڈن کا5فیصد حصہ ہے۔ جبکہ ہندوستان 79فیصد روس، 6فیصد برطانیہ اور4فیصد فرانس سے اسلحہ حاصل کرتا ہے۔ دنیا میں اسلحہ امپورٹ کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک کا تعلق ایشیاء سے ہے۔ مجموعی اسلحے کا41فیصد جنوبی ایشیاء جبکہ دنیا بھر کے مجموعی اسلحے کا47فیصد براعظم ایشیاء اور اوشنیا نے حاصل کیا۔
یورپی ممالک ایران کو خطرہ ظاہر کر کے بحران پیدا کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس نام نہاد خطرے کو دور کرنے کے لئے عرب ممالک کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے منافع بخش سمجھوتے کرکے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔واشنگٹن ٹائمز نے اپنے تازہ شمارے میں ان میں سے بعض سمجھوتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ خلیج فارس کے عرب ممالک کو جو ہتھیار فروخت کر رہا ہے وہ جارحیت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ خطے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کی ممکنہ جنگ صرف ایران کے ساتھ ہوگی کیونکہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ خطے کے ممالک ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لئے امریکہ کے فضائی حملے میں شرکت کریں گے۔اس نظریے کی بنا پر امریکہ اور یورپ عرب خطے میں بحران اور وہ بدامنی پیدا کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ ان ممالک کو آمادہ کرنے کے لئے ان کے ہاتھ اپنے ہتھیار فروخت کرتے ہیں۔ خطے کے عرب ممالک کے ہاتھ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کی فروخت کا مسئلہ دو عشروں سے ایک ختم نہ ہونے والے مقابلے میں تبدیل ہوچکا ہے۔یورپ نے ایران فوبیا کے ذریعے عرب ممالک کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ خریدنے کی رغبت دلائی ہے۔ وہ بے بنیاد بہانوں کے ذریعے عرب ممالک کی تیل کمائی ہوئی دولت حاصل کرلیتا ہے اور اس کے بدلے ان کو ایسے ہتھیار دیتا ہے جن کوعرب ممالک استعمال کرنا تک نہیں جانتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے تین سال قبل فرانس کے لڑاکا طیارے رفائیل کی خرید کے مذاکرات کا آغاز کیا تھا جو بے نتیجہ رہے کیونکہ متحدہ عرب امارات میں اس وقت ساٹھ عدد فرانسیسی میراج طیارے موجود ہیں جو برسہا برس سے بے کار پڑے ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبار گلف نیوز نے حال ہی میں یورپی پالیسیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے اور اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یورپ والوں نے خطے کو اسلحہ کی دوڑ کے میدان میں تبدیل کر رکھا ہے لکھا ہے کہ یورپی ممالک ایران کے خطرے کے مقابلے کے بہانے خطے کے ممالک کو اپنے ہتھیار بیچتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خطے میں بدامنی کا سب سے بڑا سبب بن چکے ہیں۔
مصر کی منتخب حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکے دراصل امریکہ اور یوروپی ممالک خطہ میں اسلحہ کا نیا دوڑ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ بہار عرب اور عرب نوجوانوں کی بیداری کا خوف دکھاکر عرب حکمرانوں کو اقتدارکی حفاظت کیلئے اسلحہ کی خریداری کا بازار گرم کرنا مغربی ممالک کا مقصد ہے۔بہار عرب اور عرب ممالک کے عوام میں آزادی کے تئیں بیداری کا خوف عرب حکمرانوں سے کہاں زیادہ امریکہ اور یوروپ کو ہے کیوں کہ عرب حکمراں امریکہ اور یوروپ کے زرخریدغلام ہیں۔ ان کے اشارے کے بغیر وہ کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات سانس تک نہیں لے سکتے ۔ امریکہ اوریوروپی ممالک کو ان عرب حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ضرور ت ہی نہیں ہے۔ مصر کی پہلی ایسی حکومت تھی جس کی بنیاد عرب حمیت وغیرت پر تھی ۔اپنے مستقبل کا فیصلہ وہ خود کرنا چاہتے تھے جو امریکہ کو ہرگز گوارہ نہیں تھا۔ مرسی حکومت کے قیام سے سب سے زیادہ نقصان اسرائیل کا ہوا تھا اور سب سے زیادہ فائدہ ایک بڑے جیل میں بند حماس کو۔ یہ امریکہ اور سعودی عرب کو گوارہ نہیں ہوا۔ مصر عرب ممالک کے لئے ایک رول ماڈل تھا جس کے سہارے وہ امریکہ اوریوروپ کے مکڑ جال سے نکل سکتے تھے۔
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 110025
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
تیشہ فکر عابد انور
اہل مغرب کام کو سب سے زیادہ بگاڑتے ہیں اور ٹھیک کرنے کے بہانے سب سے پہلے پہنچتے بھی ہیں۔ کسی ملک کو تخت و تاراج کرتے ہیں اور تعمیر نو کے لئے سب سے پہلے کانفرنس بھی وہی بلاتے ہیں۔ پہلے اسلحہ کی سپلائی کرکے اپنی تجوری بھرتے ہیں اور پھر اس اسلحہ کو تباہ کرنے کے نام پر چڑھائی کرتے ہیں۔ غرض کہ دونوں کام اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں تاکہ کسی کے اس میں کودنے کی گنجائش نہ رہے۔ پہلے امریکہ نے اجتماعی تباہی خیزی کے ہتھیار تلاش کرنے کے بہانے عراق کے تمام بنیادی ڈھانچوں کو برباد کردیا اس سے بھی دل نہیں بھر ا تو عراق میں جمہوریت قائم کرنے کے لئے اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی میں مبتلا افغانستان پربمباری کرکے وہاں کے تمام بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا اور جب تمام ضروریات کی چیزیں تباہ ہوگئیں تو تعمیر نو کے نام پر اپنی موجودگی کو جائز ٹھہرایا اور پنے ملک کے خزانہ کا منہ بھرنے کیلئے تمام بڑے ٹھیکے اپنے ملک اور اپنے حلیف ملکوں کو دیا۔ سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد اہل مغرب نے اپنی توجہ مشرق وسطی کی طرف مرکوز کردی۔ امریکہ اور اہل یوروپ چاہتے تو خلیجی ممالک پر قبضہ کرسکتے تھے اور زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے سکتے تھے کیوں کہ دنیا کی کوئی انہیں طاقت روکنے والی نہیں تھی۔ بات بات پر شور و غوغا کرنے والی تنظیم اقوام متحدہ اس کی رکھیل ہے اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر انہی کاقبضہ ہے۔ آج تک اقوام متحدہ نے اہل مغرب کی مرضی کے خلاف کوئی قرارداد منظور نہیں کی اور اگر کر بھی دی تو اس پر عمل کبھی ممکن نہیں ہوا۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے خلاف منظور کی جانے والی قراردادیں شامل ہیں۔ امریکہ اور مغرب پوری دنیا سے ناجائز قبضہ ہٹا چکا ہے لیکن فلسطین پر قابض اسرائل کو اپنا داماد بنا رکھا ہے۔اس کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے ہمیشہ اس کو تحفظ فراہم کرتا رہاہے۔ یہاں انہیں جمہوریت ، انسانی حقوق کی پامالی، بنیادی ڈھانچوں کی بربادی اور خواتین وا طفال کے حقوق نظر نہیں آتے۔جہاں بھی جنگ ہوتی ہے یا خانہ جنگی کی صورت پیدا ہوتی ہے وہاں سب سے زیادہ پامالی انسانی حقوق اور خصوصاً خواتین وا طفال کے حقوق ہوتی ہے۔ دوغلی پالیسی اور دوہرے پیمانہ اپنانے کے لئے زمانے میں یکتا مغرب ان چیزوں پر آنکھ موند کر بیٹھ جاتا ہے۔ دنیا میں جتنی برائی ہے اس میں مغرب کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔مغرب کی اچھائی کے دوررس اثرات بھی برے ہوتے ہیں۔ انگریزی دوامریض کو جلد شفا دیتی ہے لیکن اس کے ساتھ کئی بیمایوں کے بیج بھی بودیتی ہے۔ جس طرح انگریزی دوائیاں سائڈ افیکٹ کے لئے مشہور ہیں اسی طرح مغرب کی دوستی، امداد اور تمام سرگرمیاں سائڈ افیکٹ کے لئے مشہور ہیں۔ دس ڈالر کی امداد وہیں کرتے ہیں جہاں انہیں یا ان کی کمپنی کو سو ڈالر کمانے کی امید ہوتی ہے۔ مغربی ممالک انہی ممالک میں جمہوریت کی وکالت کرتے ہیں جہاں ان کے مفاد کو خطرہ ہوتا ہے۔ مغربی ممالک کے مفادات بدترین بادشاہت سے پورے ہوتے ہیں توانہیں وہ بھی گوارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب ، قطر، کویت اور دیگر خلیجی ممالک ہیں جہاں کے عوام نے کبھی جمہوریت کا منہ نہیں دیکھااور وہاں کے عوام اظہار آزادی کے تمام حقوق سے محروم ہیں لیکن ان کے خلاف امریکہ یا مغرب نے کارروائی تو دور کی بات ان کے خلاف کبھی سخت تبصرہ تک نہیں کیا۔ان ممالک نے عراق اور لیبیا کو جمہوریت کی بحالی کے نام پر تباہ کیا ہے لیکن مصر میں ایک منتخب حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی حرکت کو جمہوریت کی بحالی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ یہ کیسی سوچ ہے؟ تاریخ نے اب تک امریکہ کا ا تنا بدترین دوغلہ پن اب تک نہیں دیکھا ہے۔ مصر کے تعلق سے ان کا اپنا یا جانے والا رویہ نے اس کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔امریکہ نے جس طرح مصری فوج کی حمایت کی ہے اس کے بعد وہ لفظ جمہوریت پر بولنے کا حق بھی کھو چکا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے حالیہ اسلام آباد دورے کے دوران یکم اگست کو جیو ٹی وی سے بات کرتے ہوئے جس طرح مصری فوج کے دہشت گردانہ قدم کی تعریف کی اور بدترین اور انتہائی غلط نظیر قائم کرنے والے رویے کی جس طرح اس نے حمایت کی ہے اس سے ہر انصاف پسند پریشان ہے۔جان کیری کے مطابق مصری فوج کو ملک میں بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد ملک کو تشدد سے بچانے کے لیے مْرسی کو ہٹانے کے لئے ایکشن لینا پڑا،’’ملٹری کو لاکھوں کروڑوں لوگوں کی طرف سے مداخلت کے لئے کہا گیا، یہ تمام لوگ ملک کے دوبارہ افراتفری اور تشدد میں گھِر جانے سے خائف تھے۔‘‘ مصری فوج اسلام پسند رہنما کی حکومت ختم کر کے ’جمہوریت کو بحال‘ کر رہی تھی۔ ’’ہمارے فہم کے مطابق فوج نے اب تک اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ ملکی معاملات چلانے کے لئے وہاں ایک سول حکومت ہے۔ دراصل وہ ملک میں جمہوریت کو بحال کر رہے تھے۔‘‘ امریکہ کی طرف سے ابھی تک مصر میں منتخب صدر کی حکومت ختم کرنے کے فوجی اقدام کو ’فوجی بغاوت‘ قرار دیے جانے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو فوری طور پر مصر کے لئے امریکی امداد متاثر ہوگی۔اب امریکہ کھلم کھلا مصری فوج کے اقدام کی نہ صرف تعریف کی ہے بلکہ توثیق بھی کردی ہے۔ سابق مصری صدر محمد مرسی کے حامیوں نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے اس بیان پر شدید تنقید کی ہے ۔ جماعت اخوان المسلمون کے ایک ترجمان جہاد الحداد نے امریکہ کو اس کا کرییہ چہرہ دکھاتے ہوئے کہا، ’’کیا یہ فوج کا کام ہے کہ وہ جمہوریت کو بحال کرے؟ کیا امریکی سکریٹری خارجہ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ملک میں اگر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوتے ہیں تو سکریٹری دفاع چک ہیگل صدر باراک اوبامہ کی حکومت کا خاتمہ کردیں۔‘‘ حداد کا مزید کہنا تھا، ’’کیا امریکی فوج ملکی آئین معطل کرکے کانگریس اور سینیٹ کو ختم کرے گی؟ کیا وہ اپنی پسند کا صدر مقرر کر سکتے ہیں؟‘‘۔ اخوان المسلمین نے ان جملوں میں نہ صرف امریکہ اور پوری دنیا کوآئینہ دکھایا ہے بلکہ مستقبل کے خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے اگر یہ کھیل مصرمیں کھیلا گیا ہے تو کل کہیں اور کھیلا جاسکتاہے۔ اخوان المسلمین نے امریکہ کے جمہوریت کے بارے میں نظریہ کو اجاگر کردیا ہے اور بتادیا ہے کہ امریکہ کسی جمہوریت کا قائل نہیں ہے بلکہ اس کا مفاد سب سے پیارا ہے خواہ وہ انسانی لاشوں پر ہی اس کے مفادات کیوں نہ پورے ہوتے ہوں۔
مصر کی صورت حال پر مغرب کی دوہری پالیسی پرترکی نے امریکہ اور مغرب پر سخت تنقید کی ہے کیوں کہ امریکہ اور مغرب نے ترکی میں حالیہ مظاہرے کی حمایت کرتے ہوئے ترکی پر سخت تنقید کی تھی۔ ترکی وزیر اعظم طیب ارودغان نے مصر میں قتل عام پر سخت تنقید کی اور کہا ہے کہ اس وحشت پر خاموشی اختیار کرنے والے وحشت کے ساجھے دار ہیں۔مصر پر مغربی دنیا کے طرز عمل اور ذرائع ابلاغ کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ایردوغان نے کہا کہ " ہم اس وحشت کے مقابل خاموش نہیں رہیں گے۔ہم ترکی ہیں ہم ناانصافی کے سامنے جھک نہیں سکتے، اگر ہر کوئی خاموش رہے تو بھی ہم خاموش نہیں رہیں گے"۔ "ملک میں منتخب حکومت کو ختم کرنے والوں نے اب عوام کو قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔ظالم ہمیشہ بزدل ہوتا ہے، ان کی طاقت دشمن پر نہیں صرف اور صرف اپنی عوام پر اثر دکھاتی ہے"۔مصر کے حالات پر خاموشی اختیار کرنے پر یورپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "اب یورپ کہاں ہے ،یورپی یونین کہاں ہے، یورپی سوسائٹیاں کہاں ہیں، ادھر اْدھر جمہوریت کا درس دینے والے کہاں ہیں، جمہوری اقدار کہاں ہیں اور اقوام متحدہ کہاں ہے؟ ترکی میں پولیس کے نہایت درجے برحق اور جائز شکل میں تیز دھار پانی اور آنسو گیس کے استعمال پر شور شرابہ کرنے والے مصر میں فوجی قبضے اور قتل عام کے مقابل کہاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ استنبول میں ایک عام مظاہرے کی گھنٹوں تک لائیو کوریج دینے والا بی بی سی اور سی این این مصر میں فوجی قبضے اور اب قتل عام کو کیوں نہیں دیکھ پا رہا۔اس لئے کہ یہ ان کے مفاد میں نہیں ہے"۔ایرودغان نے عالم اسلام کو بھی مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مصر میں آپ کے بھائیوں کو قتل کیا جا رہاہے، انصاف، سچائی اور ضمیر کو قتل کیا جا رہا ہے ، آپ اسے کب سنیں گے؟
یہ بات جگ ظاہر ہوچکی ہے مرسی کی منتخب جمہوری حکومت کو گرانے میں جہاں سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات ، دیگر خلیجی نے سیاسی اور معاشی مدد کی وہیں جنرل عبدالفتح السیسی کو امریکہ، اسرائیل ، ایران اور دیگر اسلام دشمن ممالک کی تائید حاصل تھی۔ اس کا مقصد صرف اور صرف خلیجی ممالک میں اسلحہ کا دوڑ شروع کرنا ہے۔ خلیجی ممالک اب تک اجتماعی تباہی خیزی کے اسلحہ سے پاک تھے لیکن نوے کی دہائی کے بعد وہاں اسلحہ کا دور جم کر شروع ہوگیا۔ اس کو مہمیز دینے میں ایران کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ امریکہ نے ایرانی ایٹمی اسلحہ کا خوف دکھاکر خلیجی ممالک میں اسلحہ نیا دوڑ شروع کیا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھی علاقائی ممالک کے فوجی اخراجات کا تخمینہ ایک سو گیارہ بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔اس سلسلے میں اڑسٹھ بلین ڈالر کی خریداری سے سعودی عرب سرِ فہرست ہے جو کہ امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار بھی ہے۔دوسری جانب عرب ممالک ایران کے خوف سے بھی اسلحہ خرید رہے ہیں جس کی مالیت تقریباً ایک سو تئیس بلین ڈالر ہے۔ سویڈش تھنک ٹینکStockholm International Peace Research Institute کی رپورٹ کے مطابق اسلحہ درآمد کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک ہندوستان ،چین، پاکستان، جنوبی کوریا اور سنگا پور ہیں جو مجموعی عالمی اسلحے کا 32فی صد خریدتے ہیں جبکہ برآمد کرنے والے سرفہرست ممالک میں امریکہ، روس، جرمن، فرانس اور چین ہیں۔ 2008 سے2012کے درمیان دنیا بھر میں اسلحہ ایکسپورٹ کرنے میں امریکہ کا30فیصد، روس کا26فیصد،جرمنی کا7فیصد،فرانس کا6فیصد اور چین کا5فیصد حصہ رہا ہے جبکہ اسی عرصے میں امپورٹ کرنے میں ہندوستان کا12فیصد، چین کا 6فیصد، پاکستان کا5فیصد، جنوبی کوریا کا5فیصد اور سنگا پور کا4فیصدحصہ رہا ہے۔ چینی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار پاکستان ہے۔ پاکستان چینی اسلحے کا55فیصد، میانمار8فیصد، بنگلادیش 7فیصد خریدار ہے۔ پاکستان نے 2003 سے2007کے درمیان عالمی اسلحے کا2فیصد جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں 5فیصد درآمد کیا۔ پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں چین کا50فی صد،امریکہ کا27فیصد اور سویڈن کا5فیصد حصہ ہے۔ جبکہ ہندوستان 79فیصد روس، 6فیصد برطانیہ اور4فیصد فرانس سے اسلحہ حاصل کرتا ہے۔ دنیا میں اسلحہ امپورٹ کرنے والے سرفہرست پانچ ممالک کا تعلق ایشیاء سے ہے۔ مجموعی اسلحے کا41فیصد جنوبی ایشیاء جبکہ دنیا بھر کے مجموعی اسلحے کا47فیصد براعظم ایشیاء اور اوشنیا نے حاصل کیا۔
یورپی ممالک ایران کو خطرہ ظاہر کر کے بحران پیدا کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس نام نہاد خطرے کو دور کرنے کے لئے عرب ممالک کے ساتھ اسلحے کی فروخت کے منافع بخش سمجھوتے کرکے اربوں ڈالر کماتے ہیں۔واشنگٹن ٹائمز نے اپنے تازہ شمارے میں ان میں سے بعض سمجھوتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ خلیج فارس کے عرب ممالک کو جو ہتھیار فروخت کر رہا ہے وہ جارحیت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ خطے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کی ممکنہ جنگ صرف ایران کے ساتھ ہوگی کیونکہ اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ خطے کے ممالک ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لئے امریکہ کے فضائی حملے میں شرکت کریں گے۔اس نظریے کی بنا پر امریکہ اور یورپ عرب خطے میں بحران اور وہ بدامنی پیدا کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ ان ممالک کو آمادہ کرنے کے لئے ان کے ہاتھ اپنے ہتھیار فروخت کرتے ہیں۔ خطے کے عرب ممالک کے ہاتھ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کی فروخت کا مسئلہ دو عشروں سے ایک ختم نہ ہونے والے مقابلے میں تبدیل ہوچکا ہے۔یورپ نے ایران فوبیا کے ذریعے عرب ممالک کو زیادہ سے زیادہ اسلحہ خریدنے کی رغبت دلائی ہے۔ وہ بے بنیاد بہانوں کے ذریعے عرب ممالک کی تیل کمائی ہوئی دولت حاصل کرلیتا ہے اور اس کے بدلے ان کو ایسے ہتھیار دیتا ہے جن کوعرب ممالک استعمال کرنا تک نہیں جانتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے تین سال قبل فرانس کے لڑاکا طیارے رفائیل کی خرید کے مذاکرات کا آغاز کیا تھا جو بے نتیجہ رہے کیونکہ متحدہ عرب امارات میں اس وقت ساٹھ عدد فرانسیسی میراج طیارے موجود ہیں جو برسہا برس سے بے کار پڑے ہیں۔ متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبار گلف نیوز نے حال ہی میں یورپی پالیسیوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے اور اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ یورپ والوں نے خطے کو اسلحہ کی دوڑ کے میدان میں تبدیل کر رکھا ہے لکھا ہے کہ یورپی ممالک ایران کے خطرے کے مقابلے کے بہانے خطے کے ممالک کو اپنے ہتھیار بیچتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خطے میں بدامنی کا سب سے بڑا سبب بن چکے ہیں۔
مصر کی منتخب حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکے دراصل امریکہ اور یوروپی ممالک خطہ میں اسلحہ کا نیا دوڑ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ بہار عرب اور عرب نوجوانوں کی بیداری کا خوف دکھاکر عرب حکمرانوں کو اقتدارکی حفاظت کیلئے اسلحہ کی خریداری کا بازار گرم کرنا مغربی ممالک کا مقصد ہے۔بہار عرب اور عرب ممالک کے عوام میں آزادی کے تئیں بیداری کا خوف عرب حکمرانوں سے کہاں زیادہ امریکہ اور یوروپ کو ہے کیوں کہ عرب حکمراں امریکہ اور یوروپ کے زرخریدغلام ہیں۔ ان کے اشارے کے بغیر وہ کوئی قدم اٹھانا تو دور کی بات سانس تک نہیں لے سکتے ۔ امریکہ اوریوروپی ممالک کو ان عرب حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ضرور ت ہی نہیں ہے۔ مصر کی پہلی ایسی حکومت تھی جس کی بنیاد عرب حمیت وغیرت پر تھی ۔اپنے مستقبل کا فیصلہ وہ خود کرنا چاہتے تھے جو امریکہ کو ہرگز گوارہ نہیں تھا۔ مرسی حکومت کے قیام سے سب سے زیادہ نقصان اسرائیل کا ہوا تھا اور سب سے زیادہ فائدہ ایک بڑے جیل میں بند حماس کو۔ یہ امریکہ اور سعودی عرب کو گوارہ نہیں ہوا۔ مصر عرب ممالک کے لئے ایک رول ماڈل تھا جس کے سہارے وہ امریکہ اوریوروپ کے مکڑ جال سے نکل سکتے تھے۔
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 110025
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment