Terror Targeting Muslim youth by abid anwar


مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات کی جنگ اتحاد سے جیتی جاسکتی ہے
تیشہ فکر عابد انور 
ہندوستان کے مسلمانوں میں جس قدر تیزی سے حب الوطنی آزاد خیالی، غیر جانب داری ،سیکولرازم میں مذہب سے زیادہ اعتماد ،تعلیم ، خصوصاً پیشہ وارانہ تعلیم اور اطلاعاتی تکنالوجی میں بڑھتا ہوا رجحان، سیاست کی طرف رغبت، تعمیری کاموں میں دلچسپی اور برادران وطن کے شانہ بشانہ چلنے کی چاہت جب سے بڑھی ہے اس کے ساتھ ہی مسلم نوجوانوں کا ناطقہ بند کرنے کے لئے تمام سطحوں پر سازشوں کا جال بھی بنا جانے لگا ہے۔ دہشت گردی کے الزام میں آج تک جتنے بھی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے بیشتر ڈاکٹر، انجینئر یا مذہبی طبقہ سے تعلق رکھنے والا نوجوان ہے۔ جن میں سے مدارس کے کچھ فارغین کو بھی نشانہ بنایا گیاہے جو سائنس یا بم کے الف ب ت بھی نہیں جانتے۔ کیوں کہ پکڑنے والے پاس ڈفلی بھی ہے، ڈفلی بجانے والا بھی ، حاکم بھی ہے، منصف بھی ، آئین بھی ہے ، آئین ساز بھی اور آئین کو ربڑ کی طرح استعمال کرنے والے وکلاء کی فوج بھی ہے۔ یہاں انصاف ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔ دہشت گردی کے الزام میں ایک دو نہیں دو درجن سے زائد افراد کو بری کیا جاچکا ہے لیکن ابھی تک حکومت یا اس کی ایجنسی کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جو رویہ ۲۰۰۸ میں تھا وہ آج بھی برقرار ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے دہشت گرد ہونے کے بارے میں یہاں کے بیشتر برادران کس قدر راسخ العقیدہ ہیں اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا گیا جاسکتا ہے کہ جب ہیمنت کرکرے کو ممبئی پر دہشت گردانہ حملہ میں قتل کردیا گیا تھا تو ہمارے برادران وطن نے بعض جگہ مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ ہیمنت کرکرے کا قصور یہ تھا انہوں نے اصل دہشت گردوں کو پکڑا تھا جس کا تعلق نہ صرف سادھوؤں سے تھا بلکہ فوج اور دیگر شعبے سے بھی ان کی وابستگی تھی لیکن نہ تو فوج کو دہشت گرد قرار دیاگیا اور نہ ہی سادھوؤں کی پوری جماعت کو ۔البتہ سیمی کے کارکنوں کو دہشت گرد قرار دے کر نہ صرف سیمی پر پابندی لگائی گئی بلکہ پورے ملک میں پھیلے اس کے ارکان جو ان میں سے بہت سارے سابق بھی ہوچکے تھے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا حالانکہ اب تک ان میں سے کسی پر بھی دہشت گردی کا الزام ثابت نہیں ہوا ہے اور یہ سب ایک ایسے صوبہ میں ہواجہاں رام راجیہ کا نفاذ ہے اور اسے ہندو دہشت گردی کی لیباریٹری ہونے کابھی فخر حاصل ہے ،پولیس جس مسلم نوجوانوں کو چاہتی ہے سیمی کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیتی ہے اور وہاں عدالت کا رویہ بھی متعصبانہ ہوتا ہے۔ صرف عدالت ہی نہیں چپراسی سے لیکر اعلی عہدیدار تک اس میں ملوث ہوتے ہیں۔ یہ صورت حال تقریباً مرکزی حکومت سمیت ہندوستان کے تمام صوبوں کا ہے۔ان کا منصوبہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رکھا جائے اور حق مانگنا تو دور کی بات ہے انصاف کے لئے بھی ترستا رہے۔ مسلمانوں کے حوالے سے پورے ملک کی صورت حال کو دیکھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ آجائے گی۔ حکومت خواہ کانگریس کی رہے گی یا بی جے پی دیگر کسی اور محاذ کی اس رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور مسلمان جب تک جوتوں میں دال بانٹے رہیں گے اور مسلک کے نام پر ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرتے رہیں گے ، اس میں کوئی تبدیلی آئندہ بھی نہیں آئے گی۔ تصور کیجئے پہلے احمدآباد، مالیگاؤں، اورنگ آباد، اعظم گڑھ اور اب بہار کا دربھنگہ ماڈیول کام کر رہا ہے۔ مطلب صاف ہے کہ طے شدہ منصوبہ کے تحت ملک کے ہر ریاست کے ہر اس ضلع کو نشانہ بنایا جائے گا جہاں کے مسلم نوجوانوں میں عصری اور پیشہ وارانہ تعلیم کے تئیں رغبت بڑھ رہی ہے۔ 
فصیح محمود کی گمشیدگی اور پھر گرفتاری کے بارے میں پچھلے چند ماہ سے جس طرح میڈیا میں انڈین مجاہدین کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا گیا ہے اور اینٹی مسلم سیل (خصوصی سیل) کی طرف سے طرف سے جس قدر من گھڑت کہانیاں بیان کی جارہی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسلم نوجوان جن کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیاگیا ہے وہ کوئی معمولی دہشت گرد نہیں تھے بلکہ وہ چھلاوہ کی قوت رکھتے تھے۔ مہابھارت کے سنجے کی سی دوربینی کی قوت رکھتے تھے۔ جتنے بھی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں ملک کے تمام دھماکوں میں ملوث کیاگیا ہے۔ اس سے حکومت اور حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کا مقصد سمجھنے میں آسانی ہوگی ۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان دہلی ہائی کورٹ بم دھماکے میں ماخوذ کیاگیا ہے تو اسے احمدآباد، حیدرآباد، بنگلور، ممبئی، پونے، جے پور، لکھنوِ، بنارس اور جموں و کشمیر اور دیگر جگہوں پر ہونے والے بم دھماکوں میں بھی ملوث کردیاجاتا ہے۔ذرا تصور کیجئے کیا کوئی ایسا آدمی ہوسکتا ہے جو تمام جگہوں کے دھماکے میں ملوث ہو۔ایسا کارنامہ دیومالائی طاقت کے حامل افراد ہی انجام دے سکتے ہیں۔اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ قانونی جنگ لڑتے لڑتے پورا خاندان تباہ ہوجائے اگر کسی طرح انصاف مل بھی جائے تو دس پندرہ سال کا وقفہ گزر جائے تاکہ وہ زندگی کی کسی ڈگر پر قائم نہ رہ سکے۔ جامعہ سولیڈیرٹی ٹیچر ایسوسی ایشن نے جن ۱۶ مقدمات کی رپورٹ شائع کی ہے جنہیں عدالت نے بے قصور ثابت کیا اور پولیس افسران پر کارروائی کرنے کا حکم بھی دیا ہے اس سے اندازہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں ایک خاص ایجنڈے پر مسلمانوں کے خلاف کام کر رہی ہیں اور دہشت گردی کے نام پر اس قدر خوف زدہ کرنا چاہتی ہیں مسلمان ہمیشہ عدم تحفظ کا شکار ہوکر ہر وقت زندگی کی بھیک کے لئے گڑگڑا تا رہے اور مسلمان نہ صرف اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائے بلکہ اس سماج کا حصہ بن جائے جس نے اس کی زندگی کا ناطقہ بند کیا ہے جیساکہ گجرات میں ہورہاہے۔ گجرات قتل عام کے لئے جتنا مودی ذمہ دار ہے اتنا ہی کانگریس ذمہ دار ہے کیوں کہ اس نے مودی کے خلاف کارروائی نہیں کی اور اس کو ثبوتوں کو تلف کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا اور گجرات کے کسی کانگریسی لیڈر نے مسلمانوں کے زخم پر مرہم رکھنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ 
فصیح محمود کی گرفتاری اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے تحت پورے بہار سے ایک درجن سے زائد مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیاگیا ہے۔فصیح محمود کی گرفتاری یا گمشدگی کا معاملہ طول پکڑا اور معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو ہشت گردی کے الزام میں گرفتار کئے گئے بہار کے ایک مزدور قتیل صدیقی کو پونے کی جیل میں قتل کردیاگیا۔ تاکہ فصیح محمود کا معاملہ دب جائے۔ خواجہ یونس کے معاملے میں مہاراشٹر حکومت نے ٹال مٹول رویہ اپنانے ہوئے کسی پولیس اہلکار پر کارروائی نہیں کی اور قتل صدیقی کے قاتلوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ اس سے قبل ۱۷ جولائی ۲۰۱۱ کو ممبئی کے بم دھماکے کے الزام میں گرفتار فیض عثمانی کو پولیس حراست میں زدوکوب کرکے مار ڈالا گیا تھا۔ اس پر بھی اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ فصیح محمود اور بہار کے دیگر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے پولیس نے بہت سارے معاملے حل کرنے کا دعوی کیا۔ میڈیا چوں کہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ترجمان کا رول ادا کرتا ہے اور پولیس کے بیان کو مقدس تصور کرتا ہے۔ اس لئے میڈیا حقائق جانے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔خفیہ ایجنسیوں کے نشانے پر سب سے زیادہ پروفیشنل اور اطلاعاتی تکنالوجی کے میدان میں کام کرنے والے مسلم نوجوان ہیں۔اس سے قبل پونے کے سافٹ وےئر انجینئر کو بمبئی دھماکے کے الزام گرفتار کیا تھا وہ یاہو میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی ماہانہ تنخواہ پر کام کرتا تھا لیکن اب اس کے حشر کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ فصیح محمود کا معاملہ روشنی اس لئے ہے کیوں کہ متمول اور تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ جہاں ان کے والڈ پیشے سے ڈاکٹر ہیں وہیں اس کی ماں اسکول کی پرنسپل ہیں ان کی اہلیہ نکہت پروین منیجمنٹ گریجویٹ ہیں۔ جنہوں نے حق و انصاف کی لڑائی کے لئے سپریم کورٹ تک کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ فصیح کی ماں بیٹے کی گرفتاری سے وہ بے حد غم زدہ ہیں اور کہتی ہیں کہ اس بات کی گواہی پورا گاؤں دے گا کہ میرا بیٹا بے قصور ہے۔ ان کے گھر کے پاس ہی عبدالسلام کا گھر ہے۔ ان کے بیٹے کفیل اختر کو کرناٹک پولیس نے گزشتہ چھ مئی کو علی الصبح گھر میں گھس کر گرفتار کر لیا تھا۔ عبدالسلام کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں سے ہمارے بچوں کے منسلک ہونے یا انڈین مجاہدین کے لئے کام کرنے کے الزام لگانے کے پیچھے ضرور ایسی طاقتیں کام کر رہی ہوں، جو ہندو ۔ مسلم تفریق کی بنیاد پر سیاست کرتے ہوں گے۔کرناٹک پولیس نے یہ گرفتاری بہار پولیس کو اطلاع دئے بغیر کی تھی۔ اس واقعہ کے بعد ریاست کے وزیر اعلی نتیش کمار نے کرناٹک کے وزیر اعلی کو خط لکھ کر احتجاج کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ قانونی عمل کے خلاف ورزی ہے۔ مدھوبنی اور دربھنگہ اضلاع کے دیہی لوگوں کا کہنا تھا کہ یہاں جس گاؤں کا کوئی مسلمان اس طرح کے الزام میں پکڑا جاتا ہے تو اس پورے گاؤں کے مسلمانوں کو دہشت گردوں کا مددگار مان لیا جاتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بدنامی اس قدر پھیلتی ہے کہ برادری کے ہی بہت سے لوگ اْن گاؤں میں رشتے کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں ۔حالانکہ اس سے قبل حکومت اور ان کی ایجنسیوں نے فصیح محمود پر کسی الزام سے انکار کیا تھا۔ 
یہ اچھی بات ہے کہ انسانی حقوق کارکن دیر سے ہی مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے ضمن میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں اور حتی الامکان متاثرین اور مظلومین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ پونے جیل میں قتیل کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابق سربراہ اور کارکن روی نائر کہتے ہیں کہ ’ہندوستان میں ٹارچر یا ایذا رسانی ریاست کے طریقہ کار کا ایک اہم پہلو ہے اور جب تک ٹارچر اور تھرڈ ڈگری کے طریقہء کار کے لیے سزا نہیں ہو گی اور متاثرین کو معاوضہ نہیں دیا جاتا تب تک اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے‘۔ ان کے مطابق ہندوستان میں ایک جمہوری نظام ہونے کے باوجود خفیہ ایجنیسیاں کسی طرح کی جوابدہی سے پوری طرح آزاد ہیں اور حکومت ایجنسیوں کے جبر کے ذریعے مذہبی اقلیتوں اور قبائلی آبادی کے لئے خوف کا ایک ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔حقوق انسانی کی پامالی کرنے والے مرتکبین کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو گی‘۔جامعہ سولیڈیرٹی ٹیچر ایسویسی ایشن کی رکن مشیشا سیٹھی کے مطابق ’دلی ہو۔ بہار ہو ، یوپی یا مہاراشٹر ، کسی بھی جگہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیکر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔پہلے کمزور ، مزدوروں ، مدارس اور علماء کو نشانہ بنایا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ بنیاد پرست متشدد ہیں۔ لیکن اب تعلیم یافتہ اورجامعات کے فیض یافتہ مسلم نوجوانوں کو پکڑا جارہا ہے۔اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر ان کی ہمت ٹوٹے گی تو پوری مسلم برادری پر اس کا منفی اثر پڑے گا اور وہ خوف کی نفسیات کا حصہ بنیں رہیں گے اور اس طرح انہیں سماجی اور اقتصادی ترقی اورتعلیم کے اصل دھارے سے الگ رکھا جا سکے گا۔حقوق انسانی کی تنظیموں کا یہ بھی خیال ہے کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے پیچھے ایک منظم سوچ کارفرما ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر پست کرنا ہے۔
مسلم تنظیمیں اس ضمن میں کئی بار وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور دیگر وزرائے سمیت اعلی حکام سے ملاقات کرچکی ہیں لیکن وعدے وعید کے سوا اس ضمن میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا وعدہ ہرجائی محبوب کا وعدہ ثابت ہوا۔ آخر مسئلہ کا حل کیا ہے۔ مسلمان طویل عرصہ سے چیخ پکار رہے ہیں لیکن ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ہر مسلک کے لیڈر اپنی ڈفلی لیکر پہنچ جاتے ہیں۔ حکومت بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ ان میں اتحاد کا فقدان کیا ، اتحاد ہے ہی نہیں ہے اور مذہبی ،سلکی اور سیاسی لیڈروں کو صرف بھیک چاہئے اس لئے اسی حساب سے ان سے پیش آتی ہے۔ مسلمانوں کے مسائل خواہ وہ روزگار سے متعلق ہوں یا حقوق سے وابستہ ہوں یادہشت گردی سے، اس وقت تک حکومت کی کانوں میں جوں تک نہیں رینگیگی جب تک اسے یہ احساس نہ دلایا جائے اس سے اس کا کچھ بگڑ سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ۴ نومبر کو ’پالیٹکس ٹیررر: تارگیٹنگ مسلم یوتھ‘ کے عنوان سے منعقدہ کنونشن میں. تمام سیاسی پارٹیوں کا یہی رخ تھا مسلمانوں کے ساتھ یہ معاملہ اس لئے پیش آرہاہے کیوں کہ وہ بکھرے ہوئے ہیں۔ اس میں شامل لالو پرساد یادو، رام ولاس پاسوان، پرکاش کرات، اے بی بردھن، منی شنکر اےئرسبھوں نے مسلمانوں سے متحد ہوکر سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی ۔مسلمانوں کا مسئلہ اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک کہ سڑکوں نہیں اتریں گے اور پولیس کی لاٹھی ڈنڈا کھانے کو تیار نہیں ہوں گے۔ منی شنکر ایر نے اپنی ہی حکومت پر سخت نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں اس ملک کو گاندھی وادی بنانا ہے تو حکومت یہ دکھانا ہوگا کہ اس کے نزدیک سب برابر ہے، اگر ہم انتظامیہ کے ذریعہ کئے جانے والے ظلم کو نہیں روک سکتے تو ہمیں حکومت کرنے کا قطعی کوئی حق نہیں ہے۔اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں نوجوان لیڈر عمیق جامعی نے ہفتوں رات و دن محنت کی تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے اس طرح کے پروگرام منعقد کرکے مسلمان اپنی بیدار مغز ہونے کا ثبوت دیں۔ مسلک اور علاقائیت سے بالاتر ہوکر جب تک مسلمان متحد اور سڑکوں پر اترکر حکومت کا ناطقہ بند نہیں کریں گے اس وقت تک حکومت آپ کی بات نہیں سنے گی۔ 
یہ بات نہیں ہے کہ اتحاد اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کا اثر نہیں ہوتا ۔ اس دباؤ کا اثر ہی ہے کہ یوپی کی سماج وادی حکومت نے دہشت گردی کے الزام میں بند مسلم نوجوانوں کے بارے میں جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور اس کے تحت طارق اور خالد کو رہا کیاجارہا ہے۔ ان دونوں بنارس، گورکھپور ،رامپور کے سی آر پی ایف کیمپ ، لکھنو، فیض آباد اور بارہ بنکی پر مبینہ دھماکے کے سلسلے میں گرفتار کیاگیا تھا۔ اکھلیش سنگھ حکومت نے جیل میں بند مسلم نوجوانوں کے مقدمات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیاہے۔ مسلمان کبھی ظالم کے ساتھ نہیں رہے ۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی مسلم نوجوان واقعی دہشت گرد ہے تو اسے پھانسی پر لٹکا دینا چاہئے لیکن دہشت گردی کی آڑ میں پوری کمیونٹی اور مسلم نوجوانوں کو پریشان نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہندوستان میں اس سلسلے میں حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑرہا ہے وجہ یہ ہے کہ دوسری جگہ اس طرح کے معاملات میں حزب اختلاف اپنی پوری طاقت لگا دیتی ہے لیکن یہاں معاملہ دوسرا ہے۔ یہاں کی اہم اپوزیشن پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی ہے جس کو مسلمانوں سے کوئی لینا دینا ہے بلکہ وہ چاہتی ہے کہ سارے مسلم نوجوانوں کو جیل میں بند کردینا چاہئے اور تمام حقوق ان سے چھین لئے جائیں۔ جیساکہ مالیگاؤں اور دیگر جگہوں پر مسلم نوجوانوں کی رہائی کے سلسلے میں اس پارٹی کا ردعمل سامنے آیا تھا۔ ابھی یو پی بی جے پی کا ردعمل بھی حسب توقع ہی آیا ہے۔ ایک بار پھر اس نے سماج وادی پارٹی پر مسلم ٹشٹی کرن (مسلمانوں کی منہ بھرائی) کا الزام عائد کیا ہے ساتھ ہی کہا ہے کہ ’یہ قدم قانون کا گلا گھونٹنے جیسا ہے‘۔مطلب یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں مسلمان کے ساتھ انصاف ہوتا ہے کہ وہ قانون کا گلا گھونٹنے کے مساوی ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے اس کے علاوہ کوئی متبادل اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ متحد ہوکر اپنے مسائل کے حل اور اپنے حق کے لئے لڑائی لڑیں۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

Comments